بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم )کی انسانی حقوق کاادارہ پانک نے بلوچستان میں انسانی حقوق صورتحال پر اپنی ماہ نومبر 2023 کی رپورٹ جاری کردی ہے ۔
انسانی حقوق کی ماہانہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نمایاں اضافے کو بیان کرتے ہوئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی مایوس کن منظرکشی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ مہینے پاکستانی فوج کے ہاتھوں ماورائے قانون گرفتار 13 جبری لاپتہ افراد کا حراستی قتل کیا گیا، 62 افراد جبری لاپتہ کیے گئے اور 22 افراد کو اذیت گاہوں سے رہائی ملی۔
پانک کے مطابق جبری گمشدگیاں بلوچستان اور سندھ سے رپورٹ کی گئیں، سندھ سے 2، شال سے 5، کیچ سے 17، لسبیلہ سے 2، آواران سے 14، پنجگور سے 1، ڈیرہ بگٹی سے 4، مستونگ سے 1، خضدار سے 3، خاران سے 2 افراد، چاغی سے 1، چمن سے 1، سبی سے 1، گوادر سے 7 اور ضلع نصیر آباد سے ایک فرد کو پاک فوج نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کیا۔
رپورٹ میں ضلع آواران کے علاقوں بزداد اور پیرندر میں ہونے والے المناک واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جہاں دو افراد کو ان کے گھروں میں گھس کر قتل کیا گیا۔ پولیس کی کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے ضلع خضدار میں ایک جعلی مقابلے میں تین زیر حراست جبری لاپتہ افراد کو قتل کیا ۔ مزید برآں، جھوٹے پولیس مقابلوں میں ضلع کیچ میں سات افراد کا حراستی قتل کیا گیا۔
رپورٹ میں 19 نومبر 2023 کو بالگتر ضلع کیچ میں پیش آنے والے سانحے کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ سانحہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے سلسلے میں ایک اور وحشیانہ عمل کے اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ایک ہی خاندان کے تین افراد شاہ جہان ، نبی داد اور عادل کو جبری لاپتہ کیا گیا، گاڑی میں بٹھایا گیا اور گاڑی کو بم دھماکے سے تباہ کرکے انھیں قتل کردیا گیا۔تحقیقات کے مطابق اس گھناؤنی کارروائی میں پاکستانی فوج ، پولیس کی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) اور پاکستانی فوج کا مقامی ایجنٹ خالد یعقوب ملوث ہیں۔اس سانحے نے ریاستی اداروں کی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں ، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی طے شدہ ریاستی پالیسی کو بے نقاب کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 28 نومبر 2023 کو تربت ضلع کیچ میں ماورائے عدالت قتل کے رجحان میں پریشان کن اضافہ رہا ، پولیس نے سیف اللہ ، شکور ، عبدالودود اور بالاچ کی لاشیں ہستپال پہنچائیں جو جبری لاپتہ تھے۔ اس کے ردعمل میں شدید احتجاج کیا گیا ، بالخصوص بالاچ کے لواحقین کی طرف سے ، اس عمل کو ماروائے عدالت حراستی قتل کا سنگین واقعہ قرار دیا گیا۔ سی ٹی ڈی کی طرف سے طاقت کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال اور جھوٹے مقابلوں نے اس ادارے کو ’ تشدد کے ایک اوزار ‘ میں تبدیل کردیا ہے ، مزید مظالم کو روکنے کے لیے سی ٹی ڈی کو فوری غیرمسلح کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں طلباء کی حالت زار پر بھی توجہ دلائی گئی ہے جنھیں امتیازی سلوک اور جبری گمشدگیوں کا سامنا ہے۔ تعلیمی اداروں کو فوج کے زیرکنٹرول علاقوں میں تبدیل کردیا گیا ہے، لسبیلہ یونیورسٹی میں طلباء کے خلاف پولیس کی بلاجواز طاقت کا استعمال میں دیکھنے میں آیا اور 17 نومبر 2023 کو طالب علم سمیر بلوچ کو احتجاج کے دوران گرفتار کرکے جبری لاپتہ کیا گیا۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی سنگین صورتحال انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر فوری بین الاقوامی توجہ اور ذمہ داران کی جوابدہی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس طرف توجہ دلانے کی مسلسل کوششوں کے باوجود، بلوچستان میں انسانی بحران کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، یہاں لوگوں کی زندگیوں اور حقوق کے تحفظ کے لیے فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔