جنگ کواس نہج پر لانا ہوگا کہ پنجاب کے لوگ کہیں کہ اب بلوچستان میں جنگ کو بند کرو، بشیر زیب

0
678

بلوچستان میں سرگرم مسلح آزادی پسندتنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ کا 25 منٹ پر مشتمل کا ایک ویڈیو پیغام تنظیم کے میڈیا چینل ہکّل پر جاری کی گئی ہے۔ مذکورہ پیغام بلوچی زبان میں ہے۔

ویڈیو کی ابتداء میں بی ایل اے کے سربراہ کے ساتھ تنظیم کے دیگر جنگجوئوں کو جدید ہتھیاروں کے ساتھ پہاڑوں میں مارچ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بی ایل اے سربراہ کو اسکواڈ دینے والے ارکان کے وردی اور بیجز سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بی ایل اے مجید برگیڈ، بی ایل اے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ اور بی ایل اے فتح اسکواڈ کے ارکان شامل ہیں۔

علاوہ ازیں ویڈیو کے درمیان بی ایل اے مجید برگیڈ کی خاتون فدائین پر مشتمل ارکان کو بھی دکھایا گیا ہے۔

بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب بلوچ بلوچی زبان میں مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ہم نے تشدد کا راستہ کیوں اختیار کیا ہے، پاکستان جیسے قبضہ گیر تشدد کے بغیر کسی زبان کو نہیں سمجھتیں، پاکستان کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ جبر، وحشت، طاقت کے زور پر قبضہ آور ہے تو اسکو طاقت کے زور پر روکا جاسکتا ہے۔ اسکی جبر اور ظلم کے سامنے آپکے آنسو، فریاد، دھرنے جلسے اور مظاہرے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔

بی ایل اے کے سربراہ نے کہا کہ جو لوگ پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں وہ خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ بے بس ہیں انکے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ دشمن اپنے عمل سے ہمارے نظریہ کو سچ ثابت کررہا ہیں کہ تشدد کو تشدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے اس بندوق کو شوق سے نہیں اٹھایا، مرنے اور مارنے کے کیلئے ہم شوق سے نہیں نکلے ہیں، یہ ہمارا شوق نہیں بلکہ مجبوری ہے کہ ہم اپنے دفاع کے لئے اس جنگ کو لڑ رہے ہیں، ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں وہ (پاکستان) طاقت اور بندوق کے زور پر قبضہ آور ہوا ہے۔

بشیر زیب بلوچ نے کہا کہ مسلح جدوجہد اور مہذب اقوام کو دیکھا جائے تو آج وہی ممالک اور اقوام مہذب اور جمہوریت پسند کہلائے جاتے ہیں جو جنگ کے بدترین دور سے گذرے، جنگ و مسلح جدوجہد کی انتہاء کو پہنچ کر آج یہاں تک پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم وہاں تک نہیں پہنچے کہ کوئی ہماری آواز سنے وہاں تک پہنچنے کے لئے ہمیں اس جنگ کو انتہا تک لیجانا ہے تاکہ ہماری آواز سنی جائے۔

انہوں نے یوکرائن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ کی تباہی کے دہانے پر پہنچ کر اپنا دفاع کیا اور دنیا نے انکی مدد کی ۔

بشیر زیب بلوچ نے کہاکہ ہماری فریاد اور آہ و بقا کا ایک دائرہ ہوسکتا ہے لیکن وہ کسی کی توجہ حاصل نہیں کرسکتے، انکا کہنا تھا کہ عالمی اور انسانی قانون کو ہم اپنے سوچ اور خواہش کے مطابق پیش نہیں کریں؛ فدائی حملے، دستی بم، کلاشنکوف اس مسلح جنگ کے حصے و ذرائع ہیں، ان کو الگ الگ پیش نہیں کیا جائے، یہ جنگ کے حصے ہیں اور تمام دنیا نے انہی طریقہ کار کو استعمال کیا ہے۔

سربراہ بی ایل اے نے کہا کہ ہمیں جنگ سے نفرت ہے جنگ ہمیں پسند نہیں ہم امن پسند لوگ ہیں لیکن امن جنگ سے نکلی ہے، کوئی کہتا ہے کہ مزاکرات تو ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں ہم آزادی کے نقطے پر مزاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ ہم اپنے جنگ کو مزاکرات کی ٹیبل پر لیجانے چاہتے ہیں، قومی آزادی کے لئے اس جنگ کو مزید تیز کرنا ہوگا جب تک ایک موثر جنگ نہیں لڑی جائے گی وہ ٹیبل بھی ہمیں میسر نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ جنگ مہذب اور شریفانہ انداز میں نہیں لڑی جاسکتی ہے، ہمیں اپنے جنگ کو یہاں تک لانا ہوگا کہ اسلام آباد، پنجاب ، پنڈی، لاہور اور گجرانوالہ کے لوگ باہر نکلیں، فریاد کریں اور پاکستان سے کہیں کہ اب بس کرو بلوچستان میں جنگ کو بند کرو۔

اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہاکہ خواتین سے متعلق کہا جاتا ہےکہ ان کو جنگ میں کیوں شامل کیا جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان کو جنگ میں شامل کیوں شامل نہیں کیا جائے؟

“خواتین اور مرد میں کیا فرق ہے؟ انکی صلاحیت، بہادری، ہمت اور مستقبل مزاجی کسی بھی شے میں فرق نہیں ہے، اگر کوئی روایتی رجعت پسندی کے لحاظ سے یہ بات کہتا ہے تو وہ اپنے آپکو کیسے ترقی پسند اور پڑھا لکھا کہتا ہے جو خواتین کی صلاحیتوں کا استحصال کررہا ہے۔ جنس کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے وڈیو پیغام میں کہاکہ جو کہتے ہیں کہ خواتین کی جنگ میں شمولیت روایات کے خلاف ہے تو کونسے روایات؟ شہید خان محراب خان کیمثال دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ انکی بیوی گنجان بی بی اسکے دربار میں مشیر کی حثیت سے موجود ہوتی تھی، میری پر حملے کے دوران اس کا اہم کردار تھا، محراب کی شہادت کے بعد گنجان بی بی نے اپنے لوگوں کو سنبھالا، شہداء کو کفن دفن کیا، یہی بلوچ روایات ہیں۔ اسلامی روایات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے صحابی صبیحہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنگ میں بہادری سے کردار ادا کیا تو حضور پاک نے انہیں امہُ حمیرہ کا لقب دیا۔ ایسے ہزاروں اسلامی روایتیں ہیں کہ جنگوں میں کئی خواتین کا اہم کردار رہا ہے ۔

انہوں کہاکہ دوسرے اقوام میں بھی جنگ میں خواتین کا کردار اہم رہا ہے۔ وینی منڈیلا، سمیرم کرد، لیلیٰ خالد، جمیلہ الجزائری اور دیگر بڑے نام موجود ہیں۔ بلوچ روایات، اسلامی روایات یا انسانی روایات میں خواتین میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دشمن کا بیانیہ ہے اور اس بیانیہ کو افسوس کے ساتھ بلوچ آزادی پسند، انسانیت پسند اپنالیں کہ ہم خواتین کو استعمال یا ڈال بنا رہے ہیں، یہ غلط اور دشمن کا بیانیہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here