فرانس میں نوجوان کی ہلاکت پر پولیس کیخلاف پُرتشدد احتجاج جاری، 150 مظاہرین گرفتار

0
162
فوٹو: اے ایف پی

فرانس میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان کے قتل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک 150 افراد کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے۔

خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مظاہروں کے دوران سرکاری عمارتوں پر حملوں کے واقعات بھی رونما ہوئے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔

فرانس سمیت کئی شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، مظاہرین نے پولیس پر حملے کیے اور کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگادی۔

ان جھڑپوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے ایمانوئل میکرون نے وزرا کے ہنگامی اجلاس میں شرکا کو صورتحال سے ذمہ داری سے نمٹنے کی ہدایت کی۔

دو روز قبل پیرس میں ٹریفک اسٹاپ کے دوران پولیس کی جانب سے 17 سالہ نوجوان ناہیل ایم کو پولیس کی جانب سے گولی مارنے کے واقعے نے ملک کے مضافاتی علاقوں کو راتوں رات ہلا کر رکھ دیا، مظاہرے پھوٹ پڑے اور مشہور شخصیات نے بھی اس قتل پر غم و غصے کا اظہار کیا۔

سالہ ناہیل ایم کے قتل کے بعد فرانس کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ پیرس کے مغربی علاقے نانتیرے میں بھی فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔

اس معاملے پر بدھ اور جمعرات کے دوران فرانس کے بڑے شہروں میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔ پیرس میں بس اور ٹرام سروسز معطل کی گئی ہیں۔ ایک پولیس افسر کو گرفتار کر کے ان پر قتل کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں جن میں گاڑیوں اور املاک کو نذر آتش کیا گیا۔ مظاہروں پر قابو پانے کے لیے 40 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے نوجوان کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔

اپنی ماں کی واحد اولاد ناہیل ایم گھروں میں کھانا پہنچانے والے ڈیلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے اور رگبی لیگ کھیلتے تھے۔

ناہیل کی تعلیم زیادہ اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے الیکٹریشن کی تربیت حاصل کرنے کے لیے سرسنس کے ایک کالج میں داخلہ لیا تھا جہاں وہ رہتے تھے۔

جو لوگ انھیں جانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ نانتیرے سے بہت پیار کرتے تھے جہاں وہ اپنی والدہ مونیا کے ساتھ رہتے تھے۔ ناہیل بظاہر اپنے والد کو نہیں جانتے تھے۔

ناہیل کا کالج میں حاضری کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا لیکن ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا۔ البتہ پولیس ناہیل کو جانتی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here