بلوچ خواتین اب ریاستی ہدف

0
308

مقبوضہ بلوچستان میں قابض فوج کی نسل کشی نے بنگلہ دیش کی تاریخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،یہاں پاکستانی ریاست آئے روز بنگلہ دیش کی تاریخ دہرا رہی ہے۔بلوچ آواز،آزادی و حق کے فلگ شگوف  نعروں سے خوف زدہ عالمی دہشت گرد پاکستانی ریاست نے بلوچ کو خوف زدہ کر نے کے لیے خواتین و بچوں کی جبری گمشدگی کے ساتھ عصمت دری کا سلسلہ شروع کیا ہے اور بلوچ عورتوں کی جبری گمشدگی اور تشدد جیسے دلسوز واقعات اب قابض ریاست کے جنگی جرائم کا حصہ بن چکے ہیں۔اس کے ساتھ مقبوضہ بلوچستان میں بھی بے دردی سے بلوچوں کا قتل و غارت نسل کشی کی شکل اختیار کر چکی ہے جو ایک بڑے انسانی المیے سے کم نہیں۔

قبضہ گیر پاکستان اپنی شدت پسندانہ تشدد سے  بلوچ کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر دباؤ ڈال کر ان کو اپنی جہد آزادی سے دست بردار کرانا چاہتی ہے مگر بلوچ کی تاریخ سے نابلد پاکستان کی اشرافیہ و اسٹیبلشمنٹ بھول گئی ہے کہ بزور شمشیر کوئی بھی قابض بلوچ زمین کو فتح نہیں کر سکی ہے۔

ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی اور زندان میں نفسیاتی و جسمانی تشدد پاکستان کی بلوچستان پر قبضہ کی پالیسی کا وہ حصہ ہے جس کے ذریعے وہ سمجھتا ہے کہ بلوچ خواتین کو اس طرح جبر کا شکار بنا کر خواتین و بچوں کو خوف زدہ کر پائے گا مگر یہاں حقیقت ان کی سوچ کے برعکس ہے،ماہ رنگ بلوچ، سمی بلوچ جیسے درجنوں بچے مقبوضہ بلوچستان کی سڑکوں پراحتجاج کرتے ہوئے بڑے ہوئے اور یہ ریاستی جبر ان کے لیے کوئی انہونی نہیں۔ہر بلوچ بیٹی،ماں،چھوٹے،بڑوں کو پتہ ہے کہ پاکستان کے  جبر کی انتہا یہی ہے کہ وہ خواتین و بچوں کو ’جنسی غلام‘ بنا تی ہے اور اس کے بعد اس کی تشدد بھی اس کے ساتھ زمین میں دفن ہو جاتی ہے۔

آج پاکستان اس دیے کی طرح ہے جو بجھنے سے پہلے پڑ پڑاتی ہے کچھ لمحے کے لیے تیز ہو جاتے ہی اور پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔
ماہل بلوچ سمیت سینکڑوں بلوچ خواتین و بچوں اور ہزاروں بلوچ فرزندوں کی ریاستی عقوبت خانوں میں دشمن کے خلاف نفسیاتی و جسمانی لڑائی بلوچ قوم کے لیے ایک تانباک مسقبل کی نوید ہے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here