عالمی ادارہ صحت کا تمام مماک سے کوروناکے ابتدا متعلق اپنی رائے دینے کی ہدایت

0
188

عالمی ادارہ صحت نے چینی لیب سے کووڈ کے لیک ہونے کے امریکی دعوؤں اور بیجنگ کی جانب سے تردید کے بعد تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ یہ ظاہر کریں کہ وہ کووڈ 19 کے آغاز کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن(ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے منگل کے روز فاکس نیوز ٹیلی ویژن کو بتایا تھا کہ ایف بی آئی نے اب کووڈ-19 وبائی مرض کے ماخذ کا اندازہ لگایا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر زیادہ تر ووہان میں لیبارٹری میں پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے پھیلا۔

چینی حکام نے اس دعوے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور اسے بیجنگ کے خلاف ایک ناپاک مہم قرار دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئس نے اصرار کیا کہ اگر کسی ملک کے پاس وبائی مرض کی ابتدا کے بارے میں معلومات ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس معلومات کو عالمی ادارہ صحت اور بین الاقوامی سائنسی برادری کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معلومات الزامات عائد کرنے کے لیے استعمال نہیں کی جائیں گی بلکہ اس وبائی مرض کی ابتدا کے بارے میں ہمیں مزید سمجھ بوجھ فراہم کرے گی تاکہ ہم مستقبل کی وبائی امراض کو روک سکیں، اس کی تیاری کر سکیں اور ان کا جواب دے سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے کووڈ-19 وبائی بیماری کی ابتدا کی نشاندہی کرنے کے کسی منصوبے کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔

2021 میں اقوام متحدہ کی صحت کی ایجنسی نے ناول پیتھوجینز کی ابتدا کے لیے نام نہاد سائنسی مشاورتی گروپ قائم کیا تھا جس نے ان اہم مطالعات کی نشاندہی کی تھی جن کی چین اور دیگر جگہوں پر وبائی امراض کی ابتدا کے حوالے سے مفروضوں کی جانچ کرنے کے لیے ضرورت ہے۔

ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت چین سے ڈیٹا شیئر کرنے کے حوالے سے شفافیت برتنے، ضروری تحقیقات کرنے اور نتائج کے اشتراک کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تک وائرس کی ابتدا سے متعلق تمام مفروضے میز پر موجود ہونے چاہئیں۔

لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اصلیت کی تحقیق کے بارے میں مسلسل سیاست کرنا نامناسب ہے جس سے کام مشکل تر ہو رہا ہے اور دنیا کم محفوظ ہو رہی ہے۔

کورونا وائرس کا پہلا کیس چین کے شہر ووہان میں 2019 کے آخر میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here