بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں ریاستی حکمت عملی ہے،ماماقدیر

0
114

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میںبلوچ جبری لاپتہ افراداور شہدا کے لواحقین کی احتجاجی کیمپ کو 4960 دن ہوگئے۔

بی ایس او کے سینئر وائس چیئرمین محمد اشرف بلوچ ان کے کابینہ اراکین، پشتونخواہ میپ کارکنان سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان ریاستی عتاب کا شکار رہا ہے اور ہے ویسے تو ایسا کوئی دن نہیں ہے جس دن مخصوص خبر نہ سنی ہو کہ آج ریاست نے اپنے ہاتھ کو بلوچ کے خون سے رنگنے سے روک لیا ہے اور نوجوانوں کو جبری طور لاپتہ نہ کیا ہو بلوچ خواتین کا جبری اغوا لاپتہ کرنا ایک تشویش ناک عمل ہے ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ پر امن جد جہد میں خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار نے جس طرح پر امن جد جہد کو شعوری طور پر لیس کر دیا ہے اور خواتین کے تاریخی کردار نے بلوچ قوم کی آواز کو اعلی سطح پر اُجاگر کر دیا ہے بلوچ قبائلی اور روایتی معاشرے میں خواتین جے گھروں سے باہر نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کڑھے ہونے کے بارے میں دشمن سوچ بھی نہیں سکتا تھا ریلیاں ہڑتالیں مظاہرے اس لئے کہ بلوچستان میں پاکستانی افواج کے مظالم کو عالمی دنیا کے سامنے لانا ہے اور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے کہ وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کا نوٹس لے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان بھر میں آئے روز بلوچ خواتین کا جبری اغوائیں ریاستی حکمت عملی لگتی ہے جو بلوچستان میں ہونے والی نسل کشی میں مزید تیزی پیدا کر دے گئی اور اگر اس پر عالمی اداروں نوٹس نہ لیا اور پاکستان کا ہاتھ نہ روکا تو بلوچستان میں انسانیت کی ایسی تذلیل ہوگی کہ جس کے بارے میں دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ حالیہ بلوچ خواتینوں معصوم بچوں جبری اغوا کرنے کے نام نہاد قومیت کی اصلیت پر واضع کر دی ہے کہ جن کہ سامنے بلوچ خواتین جو بلوچ غیرت عظمت کی نشانی ہے بلوچستان بھر میں آپریشن بلوچ خواتین کا اغوا اور سب سے بڑھ کر دنیا کو اپنی واحد طاقت دیکھانے جیسے بہت سارے چیلنجز ہیں جن سے مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد شرط اؤل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here