بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم)کے ہیومین رائٹس ڈیپارٹمنٹ ’پانک‘ کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق نومبر میں پاکستانی فورسز نے 36 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جبکہ 23 بلوچ فرزندوں کو فورسز کی مختلف کارروائیوں میں قتل کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ مہینے میں پاکستان کے آرمی،ایف سی اور نام نہاد سی ٹی ڈی نے بلوچستان اور سندھ(جیکب آباد) میں بلوچ مہاجرین سمیت 36 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا -اس مہینے یا اس سے قبل جبری گمشدگی کے شکار14 افراد کو شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رہا کردیا گیا-
گذشتہ مہینے کے آخری عشرے میں کوھلو کے علاقے میں ڈرون طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فوج کشی کی گئی جس میں آزادی کے لیے سرگرم 8 جھدکار شہید ہوئے جبکہ اسی مہینے کولواہ میں ڈرون طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے مزید 11 آزادی پسند کارکنان شہید کیے گئے جبکہ عام آبادی کو بھی جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا گیا-
رپورٹ کے مطابق ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ کے گاؤں کوھڑو میں اندورن وطن مہاجرت اختیار کرنے والے افراد سے دوبارہ واپسی کے بعد پاکستانی فوج ہیلی پیڈ اور فوجی کیمپ کی تعمیر کے لیے جبری مشقت لے رہی ہے۔جس کا ویڈیو ثبوت ادارہ پانک نے حاصل کرکے سوشل میڈیا پر شائع کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچ عوام کی ایک بڑی تعداد فوج کشی سے تنگ آکر ایران اور افغانستان میں نقل مکانی کرچکی ہے جہاں و بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پانک کے مطابق پاکستانی فوج اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بلوچستان میں انسانی ڈھال کا استعمال کر رہی ہے۔نومبر میں چاکر مجید کو فوجی حکام نے مخبری کے لیے زور دیا جس پر انھوں نے تنگ آکر خودکشی کی جبکہ اس سے پہلے بھی اس پاکستانی فوج کے جبر سے لوگ خودکشیاں کرچکے ہیں۔
پانک نے انسانی حقوق کے اداروں اور مہذب ممالک سے بلوچستان میں اسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی روک تھام اور جنگ متاثرہ افراد کی انسانی بنیادوں پر مدد کی اپیل کی ہے۔