پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق راولپنڈی کے علاقے ڈھیری حسن آباد سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نے اپنی سروس کا آغاز آفیسرز ٹریننگ سکول کے 17ویں کورس میں منگلا سے کیا تھا جس کے بعد انھیں فرنٹئیر فورس ریجمنٹ کی 23ویں بٹالین میں کمیشن دیا گیا تھا۔
بطور لیفٹیننٹ کرنل عاصم منیر نے سعودی عرب میں بھی فرائض سرانجام دیے ہیں۔
عاصم منیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بطور بریگیڈیئر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز بھی کام کیا ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ اُس وقت ٹین کور کمانڈ کر رہے تھے۔
اپنی سروس کے دوران وہ متعدد پوسٹوں پر تعینات رہے تاہم ان کی اہم تعیناتی سنہ 2017 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس (ڈی جی ایم آئی) تھی جس کے بعد سنہ 2018 میں انھیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
سنہ 2019 میں انھیں کور کمانڈر 30 کور یعنی گوجرانوالہ میں بھی تعینات کیا گیا تھا اور اکتوبر 2021 میں انھوں نے اس عہدے کی کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کے سپرد کی تھی۔
اپنے کیریئر کے دوران وہ لگ بھگ آٹھ ماہ کے لیے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) بھی کام کر چکے ہیں۔
عاصم منیر تھری سٹار جنرل ہیں اور فی الحال بطور کوارٹر ماسٹر جنرل (کیو ایم جی) پاکستان کی فوج میں ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔
عاصم منیر نے محض آٹھ ماہ کے لیے بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے فرائض انجام دیے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دور حکومت میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو فقط آٹھ ماہ تعیناتی کے بعد اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بارے میں ملٹری افسران کا دعویٰ ہے کہ ’انھیں عمران خان کے کہنے پر ہٹایا گیا تھا‘ تاہم عمران خان نے اس کے بارے میں کبھی کوئی وضاحت یا تردید نہیں کی۔
صحافی اعزاز سید دعویٰ کرتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا نام لے کر انھیں بطور آرمی چیف تعینات کیے جانے سے منع کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عاصم منیر آئے تو چونکہ انھوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی ان کو مسترد کیا تھا، اس لیے آگے جا کر ان کے ساتھ کام کرنا سازگار نہیں ہو گا۔‘