امن کا نوبیل انعام ایلس بیالیٹسکی سمیت یوکرین و روسی انسانی حقوق تنظیموں کے نام

0
247

سال 2022 کے لیے امن کا نوبیل انعام مشترکہ طور پربیلاروس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ایلس بیالیٹسکی اور یوکرین اور روس میں سرگرم دو انسانی حقوق کی تنظیموں ‘رشین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن میموریل’ اور یوکرین کی تنظیم ‘یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز’ کو نوازا گیا ہے۔

نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سوئیڈش اکیڈمی کی جانب سے جمعے کو جاری کردہ اعلان کے مطابق بیلاروس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ایلس بیالیٹسکی کو ان کی خدمات پر نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔

ایلس بیالیٹسکی کا شمار بیلاروس کے اُن انسانی حقوق کے کارکنوں میں ہوتا ہے، جو اسی کی دہائی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔

اسی کے ساتھ انسانی حقوق کی دو تنظیموں ‘رشین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن میموریل’ اور یوکرین کی تنظیم ‘یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز’ کو بھی امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔

ایوارڈ کمیٹی کے مطابق اس برس امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی شخصیت اور تنظیمیں کئی برسوں سے انسانی حقوق کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں زبردست کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے تنقید کرنے کی حوصلہ افزائی کے علاوہ اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے۔

ان تنظیموں نے جنگی جرائم کا ریکارڈ رکھنے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طاقت کے غلط استعمال کی نشان دہی کے لیے غیر معمولی کاوشیں کی ہیں۔ ایوارڈ جیتنے والی شخصیت اور تنظیموں نے مل کر نہ صرف سول سوسائٹی کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے، بلکہ جمہوریت اور امن کے لیے بھی بہترین کام کیا ہے۔

نوبیل انعام کمیٹی کے مطابق ایلس بیالیٹسکی نے 1996 میں ایک تنظیم قائم کی جو بعدازاں بیلاروس میں انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم بن کر اُبھری اور اس نے ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی قیدیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ تنظیم نے سیاسی قیدیوں پر ہونے والے مبینہ تشدد کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ ان کی رہائی کے لیے مظاہروں کی بھی قیادت کی۔

برطانوی اخبار ‘گارڈین’ کے مطابق بیالیٹسکی کے ان اقدامات کے باعث اُنہیں ریاستی جبر کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اُنہیں متعدد بار ان سرگرمیوں سے باز رہنے کی تنبیہ کی گئی۔ وہ 2020 سے بغیر کسی ٹرائل کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود وہ اپنے عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

نوبیل انعام کی حق دار ٹھہرائی گئی تنظیم’رشین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن میموریل’ کی بنیاد 1987 میں سابق سوویت یونین میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے رکھی تھی۔

ایوارڈ کمیٹی کے مطابق اس تنظیم کے قیام کے مقاصد میں سابق سوویت یونین کے دور میں اس کے زیرِ قبضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ رکھنا تھا جنہیں سوویت یونین چھپانا چاہتا تھا۔تنظیم نے چیچنیا میں جنگوں کے دوران روسی افواج کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جس کی پاداش میں تنظیم کی چیچنیا برانچ کی ایک سرکردہ رُکن کو ان کے کام کی وجہ سے 2009 میں ہلاک کیا گیا۔

اسی طرح یوکرین میں منظم انسانی حقوق کی تنظیم ‘یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز’ یوکرین میں جمہوریت کی مضبوطی اور انسانی حقوق کی بہتری کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے یوکرین حکومت پر دباؤ ڈالے رکھا کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی یقینی بنائے۔

رواں برس فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنظیم نے روس کی جانب سے یوکرین کے عوام کے خلاف جنگی جرائم کا ریکارڈ مرتب کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے عالمی سطح پر معتبر سمجھنے جانے والے نوبیل انعام کے ساتھ 9 لاکھ ڈالر سے زائد رقم بھی بطور انعام دی جاتی ہے۔

دھماکہ خیز مواد ’ڈائنامائٹ‘ ایجاد کرنے والے سوئیڈش سائنس دان الفریڈ نوبیل کی وصیت کے بعد یہ انعام 1901 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کچھ وقفوں اور دو عالمی جنگوں کے باعث آنے والے تعطل کے سوا یہ ایوارڈ ایک صدی سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ہر سال یہ انعام سائنس، ادب اور امن کے فروغ جیسے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے افراد کو دیاجاتا ہے۔

دیگر شعبوں کی طرح امن کے لیے بھی نوبیل انعام ممتاز ترین ایوارڈز میں شامل ہے۔ انعام جیتنے والے کو ملنے والی انعامی رقم اس اعزاز کے بانی سوئیڈئش سائنس دان الفریڈ کے ترکے میں چھوڑے گئے اثاثوں سے ادا کی جاتی ہے۔ الفریڈ نوبیل کا انتقال 1895 میں ہوا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here