بھارتی گولہ بارود یوکرین منتقل ،روس کا شدیداحتجاج

0
6

عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی صارفین بھارتی اسلحہ سازوں کی طرف سے فروخت شدہ توپوں کے گولے یوکرین کو منتقل کر تے رہے ہیں اور نئی دہلی نے ماسکو کے احتجاج کے باوجود اس تجارت کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کی ہے۔ ماسکو نے اس مسئلے کو کم از کم دو مواقع پر بھارت کے ساتھ اٹھایا ہے۔

بھارتی، یورپی حکومتوں کے عہدہ داروں، اور دفاعی انڈسٹری کے گیارہ عہدے داروں نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز سے بات کی ہے۔ اس کے علاوہ رائٹرز نے اس تجزیے کی تیاری مں کمرشل طور پر دستیاب کسٹم کے ڈیٹا کو استعمال کیا ہے۔

ایک بھارتی عہدے دار نے کہا کہ نئی دہلی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن انکا اور منتقلی کا براہ راست علم رکھنے والے دفاعی صنعت کے ایک ایگزیکٹیو کا کہنا تھا کہ بھارت نے یورپ کو ترسیل روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

رائٹرز کے مطابق تجارتی طور پر دستیاب کسٹم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین پر روس کے فروری 2022 کے حملے سے قبل کے دو برسوں میں، بھارتی گولہ بارود بنانے والی تین بڑی بھارتی کمپنیوں، “ینترا”، “میونیشنز انڈیا” اور “کلیانی اسٹریٹجک سسٹمز” نے صرف 2.8 ملین ڈالر کے گولہ بارود کے اجزاء ،اٹلی، چیک ریپبلک، اسپین اورسلووینیا برآمد کیے تھے۔ جہاں ڈیفینس کانٹریکٹرز نے یوکرین کے لیے سپلائی چین میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری 2022 اور جولائی 2024 کے درمیان، اعداد و شمار 135.25 ملین ڈالر تک بڑھ گئے جن میں وہ جنگی سازوسامان بھی شامل ہے جسے بھارت نے ان چارملکوں کو برآمد کرنا شروع کیا تھا۔

یوکرین، اطالوی، ہسپانوی اور چیک وزارت دفاع نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

روس اور بھارت کی وزارت خارجہ اور دفاع نے اس بارے میں رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ جنوری میں، بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت نے یوکرین کو توپوں کے گولے نہ تو بھیجے ہیں اور نہ ہی فروخت کیے ہیں۔

بھارتی حکومت اور دفاعی صنعت کے دو، دو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ نئی دہلی نے یوکرین کی طرف سے استعمال ہونے والے گولہ بارود کی بہت ہی کم تعداد تیار کی ہے۔

ایک اہلکار کا اندازہ تھا کہ کیف نے جنگ کے بعد کل جتنے بھی ہتھیار درآمد کیے ہیں یہ تعداد ان کے ایک فیصد سے کم تھی ۔ خبر رساں ایجنسی یہ تعین نہیں کر سکی کہ آیا یہ گولہ بارود دوبارہ فروخت کیا گیا تھا یا یورپی صارفین نے کیف کو عطیہ کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here