بزرگ بلوچ رہنمایوسف مستی خان کی رحلت پر مختلف طبقہ فکر کی تعزیت اور انہیں خراج پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
خان آف قلات میر سلیمان احمد زئی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ یوسف مستی خان جیسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے نڈر، بے باک، پاک صاف لیڈر اس دنیا میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یوسف مستی خان نے کبھی بھی ظالم قوتوں کے سامنے نہ کبھی سرنڈر کیا اور نہ ہی اپنے ذاتی مفادات کے حق میں مظلوموں کی آواز سے دستبردار ہوئے۔
وہ ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح بلوچوں اور دوسرے مظلوموں کی آواز بنے رہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج ہر کوئی پاکستانی مظالم کا مارا ہوا مظلوم ان کی رحلت پر اشک بار اور غمگین ہے۔ خان آف قلات نے کہا کہ اللہ تعالیٰ یوسف مستی خان کے اہلخانہ کو صبر جمیل اور مرحوم کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے اپنے مشترکہ بیان میں بلوچ قوم پرست اور ترقی پسند سیاست دان یوسف مستی خان کی رحلت پر گہرے افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان اور ملک ایک ترقی پسند قوم پرست، بہادر اور سچے انسان سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یوسف مستی خان ایک باہمت، نادر اور مخلص شخصیت تھے وہ بہ یک وقت بلوچستان و سندھ اور ملک بھر کے بلوچوں اور انسانیت کے حقیقی ترجمان، ان کی پکار، مظلوم و محکوم طبقات کے قومی جمہوری سیاست کے علمبردار تھے۔ میر یوسف مستی خان نیشنل عوامی پارٹی کے اہم قومی رہنما تھے۔ انہوں نے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اور لالا لعل بخش رند، سردار عطا اللہ خان مینگل اور خیر بخش خان مری سمیت قوم پرست و ترقی پسند قیادت کے ساتھ ملکر ملک میں مارشل لاوں کیخلاف جمہوریت اور انسانی وقار کی بلندی کے لیے بھرپور سیاسی جدوجہد کی۔ ملک میں جمہوریت و قانون کی بالادستی، ون مین ون ووٹ، ون یونٹ اور ایوبی مارشل لا کیخلاف نیپ کی تحریک میں رہنمایانہ کردار ادا کیا۔ وہ بابا بزنجو کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
انھوں نے کراچی کے بلوچ عوام کو منظم و متحرک کرنے میں بہت کوشش کی وہ کراچی میں بسنے والے بلوچوں اور مظلوم و مفلوک الحال عوام کے حقیقی وارث و آواز تھے ملک میں ہونے والے ہر انصافی اور ہونے والی جبر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی ماند کھڑے رہے۔ میر یوسف مستی خان کا سیاست میں اپنا ایک فکر نظر رہا اور آخری دم تھے ترقی پسند تحریک سے جھڑے رہے۔ میر یوسف مستی خان عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر تھے ان کی رحلت سے جہاں بلوچ و بلوچستان ایک توانا اور سچے رہنما سے محروم ہوئے، وہاں عوامی ورکر پارٹی اور مستی خاندان ایک مدبر اور دور اندیش سربراہ سے محروم ہوگے۔
اس سلسلے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے بلوچ صحافی اور مصنف عزیز سنگھور یوسف مستی خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا خلا کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ یوسف مستی خان کے جانے سے بلوچ اور دیگر اقوام بھی قیادت سے محروم ہو گئی ہیں۔
عزیز سنگھور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پوری زندگی مظلوم بلوچ عوام اور بلوچستان کی سیاست ان کا محور رہا۔ وہ میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری کے ہم عصر تھے اور اس دور کے آخری رہنماؤں میں سے ایک تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لیاری گینگ وار کا مسئلہ ہو یا کراچی میں قدیم بلوچ آبادی کی زمینیں ہتھیانے کی کوشش ہو۔ اس دوران ہمیں سب سے زیادہ متحرک اور جدوجہد کرتے یوسف مستی خان نظر آتے تھے۔‘
’جب بحریہ ٹاؤن والا مسئلہ ہوا۔ (چھ جون 2021کو مقامی دیہاتوں کو مسمار کرنے کے خلاف بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ پر احتجاج ہوا تھا) ان کی جدوجہد سے بہت سے مسائل بھی حل ہوئے اور ان کو مراعات بھی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے ٹھکرا دیا تھا۔‘
ان کے بقول: ایک متمول خاندان اور قدآور رہنما ہونے کے باوجود یوسف عام ورکرز کے ساتھ ان جیسے بن جاتے تھے۔ جو ان کی ایک خاص خوبی تھی۔
عزیز سنگھور کے مطابق: گذشتہ سال دسمبر میں انہوں نے حق دو تحریک گوادر کے دھرنیسے خطاب کیا، تو نو دسمبر کو ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کیا گیا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا انداز خطابت اور موقف کتنا سخت رہا تھا۔
’جب یوسف مستی خان نے بلوچ متحدہ محاذ کے نام سے اتحاد بنایا تو خان آف قلات سلیمان داؤد نے ان کی قیادت پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے بلوچ قوم سے ان کا ساتھ دینے کی اپیل کی تھی۔‘
عزیز سنگھور کہتے ہیں یوسف مستی خان نے ’بلوچ وسائل ریکوڈک، سیندک پر عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔ سیاسی موقف ہمیشہ صاف اور واضح رکھا۔ میں نے ان جیسا اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والا شخص نہیں دیکھا۔‘