بلوچوں کی جعلی مقابلوں اور بیرون ملک قتل کا نیا ریاستی منصوبہ

0
845

جولائی 2022 میں بھی پاکستانی فورسز کا مقبوضہ بلوچستان میں ظلم و بربریت کاعمل ماضی کی تصویر پیش کرتا رہا۔ بلوچستان میں ظلم و بربریت کی یہ داستان پچھتر سال پاکستان کے جبری کے قبضہ کے بعد شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے اور آئے روز انگریزوں کی بنائی گئی ریاست پاکستان کی ظلم و زوراکیوں میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خصوصاً حالیہ تحریک آزادی کے دوران بلوچوں پہ قیامت برپا کی گئی ہے جہاں ایک جانب ان کی نسل کشی میں شدت آئی ہے دوسری جانب لاکھوں کی تعداد میں انہیں ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کیا گیا ہے اور سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ متاثرین اندرون بلوچستان، سندھ اور ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان ممالک میں بھی پاکستان کے خفیہ ادارے بلوچوں کو تسلسل کے ساتھ قتل کررہے ہیں جیسے حالیہ دنوں افغانستان میں ایک بلوچ فرزند کی شہادت کا واقعہ۔

ایک جانب پاکستانی بربریت سے بلوچ عوام اور سیاسی کارکنان اندرون بلوچستان اور ہمسایہ ممالک میں بلوچ محفوظ نہیں تو دوسری جانب پاکستانی انٹیلی جنس ادارے یہ عمل بیرونی ممالک میں بھی شروع کی کرچکے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دورانیے میں تین بلوچ سیاسی کارکنان دوردراز کے ممالک میں قتل ہوچکے ہیں جن کے بارے آزادی پسند سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ریاستی پالیسی کے تحت قتل کیا ہے۔جن میں کینیڈا میں مقیم بی ایس او آزاد کی سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ، سویڈن میں بلوچ صحافی ساجد حسین سمیت اب حال ہی میں آذربائیجان میں بلوچ پناہ گزین ثاقب کریم کی لاش سمندر کنارے ملا ہے۔ ان تینوں واقعات کا ایک جیسا قتل اور عمل کوئی عام حادثہ نہیں بلکہ ان کے پیچھے کسی خاص طاقتور انٹیلی جنس ادارہ ہی ملوث ہوسکتا ہے۔ واقعات میں یکسوئی آزادی پسند جماعتوں کے موقف کو مزید دوام بخشتی ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے قابض ریاست ہی کارفرما ہے۔

اسی طرح افغانستان اور ایران میں مقیم کئی مہاجرین کا قتلِ عام تسلسل کے ہو رہا ہے جن کے بارے میں سوشل میڈیا میں پاکستانی سیکورٹی اداروں سے منسلک افراد اعلان بھی کرچکے ہیں کہ ان واقعات میں ہم براہ راست شامل ہیں حتیٰ کہ پاکستانی فوج کے ترجمان نے پچھلے سال یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ہم ایران اور افغانستان میں گھس کر آزادی پسندوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں بلوچوں کے قتل عام پر بلوچ سیاسی کارکنان کو سیاسی پناہ دینے والے ممالک کی خاموشی بلوچ نسل کشی میں پاکستانی عزائم اور پالیسیوں کو مزید ایندھن اور آکسیجن فراہم کررہی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا عالمی برداری پاکستان کو بلوچ نسل کشی پر کس قدر روکنے کی کوشش کرے گی؟ کیا اب بھی بلوچ نسل کشی کو پاکستان کا اندورنی معاملہ سمجھ کر سردخانے کی نظر کردی جائے گی؟ کیا بلوچ نسل کشی بین الاقوامی آئین وقانون میں جائز ہے؟ اگر نہیں تو پھر بلوچ کو بہ حیثیت انسان،انسانی حقوق کے ادارے اور مہذب دنیا اپنے طے شدہ قوانین کی روشنی میں بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے۔

ایک اور جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی فورسز تواتر کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ افراد کو جو ان کے عقوبت خانوں میں مقید ہیں انہیں مقابلے کا نام دیکر قتل کررہا ہے۔ اس سلسلے میں اسی ماہ یعنی جولائی میں جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کوجعلی انکاونٹر میں مار کر پاکستانی فورسز انسانی حقوق کے تمام قوانین کی دھجیاں اڑائی۔ حالیہ زیارت واقع میں 9 جبری لاپتہ کیئے جانے افراد کو قتل کرکے بلوچوں کے خدشات میں مزید اضافہ کیا ہے کہ وہ اب اپنی اس پالیسی کے ذریعے ہزاروں جبری طور پر گمشدہ بلوچ فرزندوں کو نشانہ بنائے گی۔ اس سے پہلے اٹھاؤ، مارو اور پھینکو کی پالیسی جاری تھی جس میں ہزاروں افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔ لہذا پاکستانی عسکری اداروں کے ہاتھوں جبری طور پرلاپتہ کیئے جانے افراد کی باحفاظت بازیابی کیلئے انٹرنیشنل ہیومین رائٹس آرگنائزیشن اور دیگر عالمی اداروں اور مہذب دنیا کو مداخلت کرنی چاہیئے تاکہ بلوچ قوم کوپاکستان کی اس بربریت سے چھٹکارا ملے۔ اگر انسانی حقوق کے اداروں نے ٹھوس اقدام نہیں اٹھایاتو بلوچوں کی نسل کشی جو گزشتہ سات دہائیوں سے چلی آرہی،اس میں آئے روز شدت آتی رہے گی۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here