بلوچستان کے تمام شہروں کے فونزٹریس کئے جارہے ہیں، ماما قدیر

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچستان میں انٹرنیٹ کافی وقتوں سے شجر ممنوعہ ہے مگر اس کرونا کے وبا کے دنوں میں موبائل نیٹورک کو ٹریس کرنے کی وجہ سے موبائل نیٹورک کی کوالٹی اتنی خراب ہے کہ موبائل پر بات کرنے کی قابل نہیں ہے۔ پاکستان آرمی و خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں تمام شہریوں کے پونز کوٹریس کررہے ہیں اور بعد ازاں انہیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔یہ امر عالمی و بنیادی انسانی حقوق و شہری حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔پاکستان کشمیر میں تو انٹرنیٹ کی بندش کا واویلا مچاتا ہے۔ ہم بھی کشمیر سمیت تمام دنیا میں تمام انسانوں کے ہر قسم کے حقوق کے ماننے والے ہیں۔ مگر بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پاکستان سمیت تمام خاموش دنیا کے ماتھے پر ایک سیاہ کالک ہیں۔اور اگر کوئی ملک اپنے ہی ملک میں کسی مخصوص قوم کے حقوق کو سلب کرے اور دیگر ممالک کے حوالے آواز اٹھائے یہ بات از خود باعث شرم ہے۔

76 % بلوچستان اکیسویں صدی میں بھی بجلی کی سہولت سے محروم ہے اور باقی 24% بلوچستان کو 24 گھنٹے میں سے صرف 6 گھنٹے بجلی مل رہی ہے۔سینٹریشن کا نظام تمام بلوچستان اپنی جگہ صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ میں تک نہیں ہے۔ 74 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دوران زچگی ماں ، بچے کی اموات بلوچستان میں دنیا بر سے زیادہ ہیں۔ سالانہ ساٹھ ہزار سےزائد بلوچستان کےشہری ، روڑ ایکسیڈنٹ، منشیات ، کینسر اور ٹی بی سے مر رہے ہیں۔خفیہ ایجنسیاں ماورائے آئین بے دریغ سو چھنے سمجھنے والے طبقے کے شہریوں خصوصاً نوجوانوں کو اغوا کررہے ہیں کہ دس دس سال تک انکی کوئی حال خبر نہیں ہے۔

کرونا کی وجہ سے تمام دنیا میں تعلیمی سرگرمیاں ورچول ، آنلائن طریقے سے جاری ہیں مگر بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں انٹر نٹ کجا فون سروس تک آرمی نے معطل کیے ہوئے ہیں۔ سکولوں میں آرمی کا قبضہ ہے۔ اگر میں آپ کو ضلع آواران کے اسکولوں کا مثال دیدوں تو آواران میں ، پرائمری ، مڈل ،ہائی کل 360 اسکولز ہیں جن سے 206 یا تو آرمی کے زیر تحویل ہیں یا بند ہیں۔بلوچستان میں میڈیا کا باالکل بلیک آﺅٹ ہے۔ ملکی میڈیا نےفوج کے دباﺅ پر بلوچستان کا بالکل بلیک آﺅٹ کیا ہے۔ عالمی میڈیا کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت سماج کو ملاﺅں اور منشیات فروشوں کے حوالے کیا گیا ہے جو کہ نہ صرف سماج بلکہ سماج کی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کررہے ہیں۔

بلوچوں کی اس خاموش نصلی صفایا پر نہ صرف ہر اہل شعور و اہل ضمیر بلکہ اقوام عالم کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچوں کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔

Share This Article
Leave a Comment