چینی سامراج | افروز رند

0
292

کچھ اسکالر و دانشور کا خیال ہے کہ کالونیل کا عہد ختم ہوچکاہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسرے جنگ عظیم کے بعد دنیا DeColoniz ہوئی اور یہ مابعد کالونیت کا دور ہے یعنی Colony_Postکا دور ہے۔ اس کی منطق وہ سرد جنگ، اور سویت یونین کے Collapse کا پیش کرتے ہیں جب پوری دنیا میں کئی قومیں اور 15 ممالک سویت یونین کے ساتھ ملے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود یہ سسٹم چلا نہیں اور آگے جاکر Unsustainable ہوگیا جب 1985میں میزائل گورباچوف برسر اقتدار آئے،اس وقت افغانستان میں سویت یونیں نام نہاد انقلاب کو بچانے کیلئے جنگ کررہاتھا،جب کہ سوشلسٹ سسٹم تیزی کے ساتھ Decline ہورہی تھی لحاظہ گورباچوف کو یہ اندازہ ہوچکاتھا کہ ہم ایک ایسے بحری بوٹ پر سفر کررہے، جو بہت جلد ہم سب کو لے ڈوبے گی، نہ صرف وہ افغانستان سے نکل گئے بلکہ اس نے ایک بڑی جوا لگانے کا فیصلہ کیا اس نےglasnost Perestroika پالیسیوں کا اعلان کیا۔سویت یونیں میں پہلی مرتبہ اظہار رائے کی آزادی، سیاسی تحریکوں اور کاروبار کی اجازت دی گئی لیکن سویت یونین کا معاشرہ یہ پریشر برداشت نہ کرسکا اور اپنے انجام کو پہنچا۔گوکہ اس میں اور عوامل بھی شامل تھے جیسے اسلحے کا دوڈ،افغان جنگ، تیسری شاید سب سے اہم George F. Kennan.،Henry Kissinger۔ کا وہ پالیسی جسے ہم containment کے نام سے جانتے ہیں،آگے کسی اور آرٹیکل میں اس کا تفصیلی ذکر کرونگی۔

چلو آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کی تھی کہ کچھ اسکالر یہ کہتے ہیں کہ سامراجیت ختم ہوچکی ہے لیکن کچھ اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ طریقہ کار تبدیل ہوچکاہے،اور کالونیوں میں لوٹ گھسوٹ اور کمزور ممالک اور قوموں کو زیر کرنے کیلئے اب جو چال بچایا جارہاہے اسے مختلف معاہدوں اور باہمی یا دو ریاستی یا کثیر ریاستی ڈپلومیسی کی نقطہ نظر کیا جاتاہے’ اسے ہم نیو کالونیل ایئرا کہہ سکتے ہیں۔جیسا کہ پاکستان کو اندازہ تھا کہ وہ آنے والے وقتوں میں بلوچستان کی جنگ کاFiscal پریشر برداشت نہیں کرسکتا، اسلئے اس نے چیں کے لیڈروں کو راضی کرکے بلوچستان کی جنگ میں انہیں ملوث کردیا کیونکہ چائنا ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔نیو کالونیت کا سوچ رکھنے والا ملک ہے۔ جوکہ دنیا پر عملا حکمرانی کا خواب دیکھ رہاہے، اس کو پورا کرنے کیلئے شی چنگ پنگ ایڑی چھوٹی کا ذور لگارہے ہیں ‘ اور اسے بحربلوچ اور بلوچ ساحلی بلٹ کی قیمت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے اور یہ اس وقت دنیا کے اہم Geopolitics. Geostrategic’ Geoeconomics,Oceanography خطوں میں شمار ہوتے ہیں جسے ہم Attractive زون کہ سکتے ہیں چاہے وہ معاشی یا سیکورٹی کی نقطہ نظر سے ہو۔

اس معاہدے سے چین کے پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں جبکہ پاکستان کا فل الحال مسئلہ سیکورٹی اور معاشیات ہے جس کی وجہ سے پاکستان چاہتا ہے کہ بیرونی سرمایہ آئے اور اس کے ڈوبتی معیشت کو سہارا ملے، جب کہ چین کیلئے یہ روٹ اسلئے اہم ہے کہ چین مستقبل میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے، اور وہ دنیا کے کئی خطوں میں اپنے سافٹ پاور کو پورٹ روڈ اور انفراسٹرکچر کے ذریعے پھیلا رہاہے، چائنا نے 1990 سے لیکر 2016تک چائنا میں 26 لاکھ سے زائد روڈ اور کوریڈور بنائے ہیں اور چائنا دنیا کی تیز ترین ریلوے بناچکاہے جوکہ 350 Mph پر چلتاہے۔چائنا اس وقت دنیا کے Developing country کو بخوبی اپنے قرضوں میں پھنسا کر مستقبل میں ان کے ریاستی اساسوں کو ضبط کرکے اپنی معاشی پلان نافذ کرے گا جس طرح گوروں کے کمپنیوں نے کیا تھا۔ البتہ چائنی کالونیت غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہاہے، جس طرح کہ چائنا نے سری لنکا سے قرضہ کی قسط نہ ملنے پر ان کے پورٹ 90 سال کیلئے اپنے پاس رکھے یہ وہی طریقہ ہے جب اگست 1842 میں برطانیہ نے Treaty of Nanjing کرکے چائنا کو رسوا کیا اور اس کے پانچ پورٹ بہ نام معاہدہ ضبط کئے اگر کسی چیز میں فرق ہے وہ صرف طریقہ کار میں ہے۔

چائنا نہ صرف سری لنکا اور بلوچستان کے پورٹ حاصل کرچکا ہے بلکہ اس وقت برما کی totalitarianism فوجی سرکار کو آکسیجن فراہم کررہا ہے جوکہ نہ صرف وہ جمہوریت پسندوں اور سیاسی ورکروں کو قتل کررہی ہے بلکہ اقتدار پر شپ خون مارکر اس پر قابض ہوچکی ہے۔ دوسری طرف چائنا یہ قرض والا فیتہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی باندھ رہاہے،جب یہ ریاستیں کمزور ہونگی اور قرضہ پیمنٹ نہیں کرسکیں گی تب چائنا اپنا شاشو ژیان والا ہتھیار استعمال کرے گا،یعنی قتل بھی کرو مقتول کو پتہ بھی نہ چلے،اس سلسلے میں ایک کتاب Unrestricted Warfare کو پڑھنے کا مشورہ دونگی۔

پاکستان ایک معاہدہ کے ذریعے گوادر کو چائنی اینوسمنٹ اور CPEC Authorities کے حوالے کرچکاہے،بلکہ بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو 2بلیں 5 ملیں ڈالر کیلئے گروی رکھ چکاہے۔جب کہ چائنا کی انوسمنٹ اور انفراسٹرکچر کیلئے سب سے زیادہ زور افریقہ کے ان ممالک پر ہیں جہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے اور معدنیات کی وسائل بے تحاشہ موجود ہیں۔’2008 سے چائنا نے دنیا کے کسی ممالک بشمول امریکہ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔

چائناM. 470 سے زائد Electrified ریلوے ٹریک بناچکاہے تاکہ Ethopia کو Djibouti سے ملایا جائے جہاں Xinjiang نے2015 میں دورہ کیاتھا اور 60B$ کی پروجیکٹ کا اعلان کیاتھا’ اور Djibouti میں چائنا کا فوجی بیس بھی ہے جونہ صرف اپنا لوکل اسلحہ بھی بخوبی بھیج رہاہے بلکہ اسلحہ کا کاروبارہ بخوبی کررہاہے۔افریقہ کے غریب ممالک کو پیسہ چاہیے کیونکہ وہ ترقی میں کافی پیچھے ہیں جب کہ چائنا کو معدنیات چاہیے اور عملا مستقبل میں افریقہ کے ممالک اگر ترقی کرتے ہیں تو چائنا کے اثر ونفوذ میں ہونگے۔یہی حال کچھ سنٹرل ایشیا کے ممالک کا ہے اور ایران نے پاکستان سے بھی بڑا معاہدہ چائنا کے ساتھ دستخط کئے ہیں جس کی مالیت 400B$ہے اور یہ بہت بڑی پروجیکٹ گوکہ اس کا بھی مرکز سیستان بلوچستان ہی ہے’۔

جس طرح پاکستان بلوچوں کی قتل عام کررہی ہے اس کے ساتھ یہی نئی نوآبادیاتی سرمایہ دار شامل ہیں ورنہ پاکستان کب کا اپنا بستر گول کرچکا ہوتا۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here