وطن کا شہزادہ شہزاد بلوچ | امجد دھوار

0
400

قلات میں جب رات کی گہری سیائی ختم ہونے لگتی ہے تب ٹمٹماتے ہوتے تارے نظروں سے غائب ہونے لگتے ہیں قلات کے بلند پہاڑوں کی یخ بستہ ہوائیں گیاوان سے گزر کر وطن کے شہزادوں کا سلام ہربوئی کی خوبصورتی تک پہنچاتی ہے، اس خوبصورتی کو دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی کرنیں بھی شور کی خوبصورت بالاد کو سلام کہنا شروع کر دیتی ہے یقینا ایسے خوبصورت شہر میں آنکھ کھولنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہو گا جہاں میری کی بلندی کیساتھ چشمہ کے قریب شہید نواب نورز خان سمیت دیگر شہیداء ماں دھرتی کی گود میں سو رہے ہو ایسے ہی اسی خوبصورت وادی میں 08 مئی 1999 کو کیپٹن خدا بخش دھوار کے گھر میں خوبصورت سا شہزادہ پیدا ہوا جس کا نام شہزاد احمد رکھا گیا جو پچپن ہی سے ایک ایسی گہری کتاب جیسا تھا جسے پڑھنے والا اس کے ہرف ہرف کو بغور مطالہ کرنے کی کوشش کرتا شہزاد احمد جس نے ابتدائی تعلیم اور میٹرک پاک پبلک سکول قلات سے حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے کوئٹہ کا رخ کیا جہاں آپ نے ایف ایس سی کے بعد بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی اور پولی ٹیکنک کالج کوئٹہ سے حال ہی میں سیول انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی اور آپ میڈیکل ٹیکنیشن بھی مکمل کر چکے تھے آپ کا شمار قلات کے فٹبالرز میں بھی ہوتا تھا اور آپ ڈی ایف اے قلات کے اہم پلیر بھی تھے

01 جون 2022 کو شہزاد گھر سے یہ کہہ کر رخصت ہوا تھا کہ میں اپنی ڈگری وصول کرنے جارہا ہوں گھر میں موجود ماں کے یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ شہزاد کی آخری رخصتی ہے چھوٹی بہن نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ آج بھائی گھر سے نکلنے جارہا ہے یہ اس کی آخری دید ہو گی یقینا شفیق اور مہربان والد سمیت گھر کے ہر فرد نے یہ کہہ کر شہزاد کو اسی امید کے ساتھ رخصت کیا ہو گا کہ اگلی ملاقات بہت جلد شہزاد سے ہو گی مگر قدرت کو یہ منظور نہیں تھا ۔ ایسے ہی ایک دن اچانک موبائل کھولتے ہی وٹسپ پر یہ خبر دیکھنے کو ملی کہ 04 جون 2022 کو موسی کالونی پولی ٹیکنک کالج کے قریب سے شہزاد دھوار اپنے دیگر دو ساتھیوں عطیق بلوچ اور احمد بلوچ سمیت سیول کپڑوں میں ملبوس فورسسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں یہ خبر کانوں میں پڑتے ہی میں دنگ رہ گیا کے ارے خدا تو نے یہ کیا کر دیا اس خاموش انسان کا آخر کیا جرم تھا کیونکہ ایک دن باتوں باتوں میں ان کے بڑے بھائی نے شہزاد کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سےکہنے لگا یار شہزاد بہت ہی خاموش طب کا انسان ہے مجھے لگتا ہے کہ جتنی باتیں کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں کرتا ہے اس کے آدھے سے بھی کم باتیں شہزاد نے اپنی زندگی میں ہم سے کی ہیں وہ ہر وقت کسی گہری سوچ میں ڈوبا سا ہوا رہتا ہے کچھ بھی اس سے پوچھ لو تو مسکرا کر ٹال دیتا ہے اس ٹاپک پر تقریبا بہت دیر تک ہم ڈسکشن کرتے رہے اس دن کے بعد میں شہزاد کو اکثر بغور دیکھتا رہتا میرے بھی زہن میں یہی سوالات گردش کرتے رہتے مجھے شہزاد اک مدد گار اور دوسروں کا خیال رکھنے والا انسان لگتا تھا کالج میں بھی ہر کولیگ کی مدد کیا کرتا تھا جب بھی کوئی نیا چہرہ کالج میں دیکھنے کو ملتا تو اس کی مدد کرتا حتہ کہ اکثر جب بھی آپ کو پتہ ہوتا کہ علاقے کا کوئی شخض شال کے کسی ہسپتال میں زیر علاج ہے تو آپ اس کی کمک کرنے پہنچ جاتے اور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاورن کرتے اکثر آپ اپنے گھر کے قریبی سکول میں طلباء سے ملنے جاتے ان سے پڑھائی کے بارے میں دریافت کرتے اور علاقے میں کتاب دوستی کا شعور ہر جگہ دیا کرتے تھے جب بھی کسی غریب اسٹوڈنٹ کو کوئی کتاب یا فیس کی ضرورت پڑتی سب سے پہلے شہزاد ہی اس کے پاس مدد کرنے کو پہنچ جاتا۔

کیا خبر تھی کہ سب کا ہمدرد بنے والا شہزاد قوم کی قبا کیلئے دشمن کے سیاہ زندانوں میں تکلیف اور مشقت برداشت کریگا آپ دشمن کی دی ہوئی ہر تکلیف اس کے زندانوں میں برادشت کرتے رہے آخر کار شکست خوردہ دشمن خون آلود بھڑیوں سے بندہ آپ کے نیم مردہ جسم سے اتنی خوفزدہ ہوئے کہ آپ کو نو لاپتہ افرد سمیت مارنے کا جھوٹا دعوی پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کیا تھا

کسی کو کیا خبر تھی کہ آپ کے اس خاموشی کے پیچھے اک اور فلسفہ ہے یہ فلسفہ مجھے تب سمجھ آیا مجھے جب قلات کے عوام نے شہزاد کے جسد خاکی کو شور کے دامن میں داخل ہوتے ہی آنسوؤں کی بجائے پھولوں سے خوش آمدید کہا میں یہ سب دیکھ کرحیران رہ گیا میں سمجھنے لگا کہ شہزاد کون تھا شہزاد کی خانوشی کی وجہ کیا تھی یہ بات ایک کھلی کتاب کی طرح میرے سامنے واضع ہونے لگی کہ شہزاد ماں دھرتی کا ایک متوالہ تھا شہزاد کی خاموشی میں وطن کا درد تھا لاپتہ اسیران کی ماؤں بہنوں کی چیخ اہ و پکار کی آوازوں نے شہزاد کو خاموش بنا رکھا تھا شہزاد تو شور کی ہواؤں کی پکار کو برسوں پہلے محسوس کر چکا تھا شہزاد تو اپنے حانی اپنے وطن کا شہہ مرید بن چکا تھا شاید قلات کے شہزادہ شہزاد کو جانا ہی تھا یقینا شہزاد کی قربانی سے جو جزبہ اور ہمت قلات میں جاگ چکی ہے وہ آگے اور بھی ابھر کر نکلے گا قلات کا ہر جوان شہزاد کا رستہ انتخاب کرے گا۔

***

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here