میانمار کی فوج جنگی جرائم کی مرتکب پائی گئی ہے،ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

انسانی حقوق کے عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایسی ”معتبر معلومات“ موجود ہیں کہ میانمار کی فوج نے ریاست کایہ میں بارودی سرنگیں نصب کی ہیں۔ ان بارودی سرنگوں نے عام شہریوں کو زخمی اور ہلاک بھی کیا ہے۔

ایمنسٹی نے میانمار کی فوج کی جانب سے ‘بڑے پیمانے پر‘ بارودی سرنگوں کے استعمال کو جنگی جرائم کے مترادف قرار دیا ہے۔ محققین نے تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب میانمار کی ریاست کا دورہ کیا۔ وہاں انہیں ایسے معتبر شواہد ملے کہ فوج کی جانب سے چاول کے کھیتوں اور چرچ کے ارد گرد بھی بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ ان بارودی سرنگوں سے شہری زخمی اور ہلاک بھی ہوئے۔ ایمنسٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میانمار کی جانب سے اپنی ہی آبادی کے خلاف بارودی سرنگوں کے ”ظالمانہ اور گھناؤنے“ استعمال پر اس ملک کے خلاف کارروائی کرے۔

مسلح افواج کی طرف سے فروری 2021 ء میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملکی قیادت کو فوجی جنتا کو سونپ دیے جانے کے بعد سے حالیہ مہینوں میں لڑائی میں تیزی آئی ہے۔

ایمنسٹی کے تفتیش کاروں نے تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب ریاست کایہ (جسے پہلے کیرنی اسٹیٹ کہا جاتا تھا) کا سفر کیا، جہاں انہوں نے بارودی سرنگ سے بچ جانے والے، طبی کارکنان جنہوں نے ان کا علاج کیا تھا، اور کلیئرنگ آپریشنز میں شامل دیگر افراد سمیت 43 افراد کا انٹرویو کیا۔

ایمنسٹی کے تفتیش کاروں کی ٹیم نے کہا ہے کہ ان کے پاس ”معتبر معلومات“ ہیں کہ فوج نے چاول کے کھیتوں کے قریب اور ایک چرچ کے ارد گرد سمیت کم از کم 20 دیہاتوں میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں، جس کے نتیجے میں شہری زخمی اور ہلاک ہوئے۔

محققین نے دعویٰ کیا کہ کم از کم ایک کیس میں، فوجیوں نے ٹرپ وائر کا استعمال کرتے ہوئے ایک گھر کی سیڑھیوں کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ” کرائسس مینیجمنٹ“ یا بحران سے نمٹنے کے ادارے کے ایک سینیئر مشیر راویا راگھے نے کہا، ”فوج کی طرف سے گھروں اور دیہاتوں میں بارودی سرنگوں کے بے دریغ استعمال سے ریاست کایہ کے شہریوں پر آنے والے برسوں تک تباہ کن اثرات مرتب رہیں گے۔“

ایمنسٹی کے تفتیش کاروں کی ٹیم کے محققین کیساتھ ایک 52 سالہ ماں نے ایک کہانی شیئر کی۔ تب اس کی نوعمر بیٹی بارودی سرنگ کا شکار ہو کر معذور ہو گئی تھی۔ روزی نے یاد کرتے ہوئے کہا، ”میں نے دھماکے کی آواز سنی، پھر میں نے دیکھا کہ کافی دھواں پھیلا ہوا ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کو ‘ماما، ماما’ چیختے ہوئے سنا اور میں دیکھنے گئی اور اسے زمین پرگرا پایا۔“ اس دکھیا ماں کا مزید کہنا تھا،” میں نے دیکھا کہ میری بیٹی کی اب کوئی ٹانگ نہیں ہے۔ میں اس کی ٹانگ کو تلاش کرنے گئی، لیکن وہ آدمی جو ہمارے پاس سے گزر رہا تھا، وہ رک گیا اور اُس نے کہا،رکو! وہاں ایک اور بارودی سرنگ ہوگی۔ اس وقت سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمہاری بیٹی کے خون کا بہاؤ روکا جائے۔“

میانمار کی فوج مقامی طور پر تیار کی جانے والی کئی قسم کی بارودی سرنگیں استعمال کرتی ہے جو ایمنسٹی کے مطابق ”بنیادی طور پر بلا تفریق استعمال“ ہے۔

فوج اس وقت متعدد محاذوں پر خانہ جنگی کر رہی ہے۔ نہ صرف مشرقی ریاست کایہ میں بلکہ مغربی ریاست راکھین میں بھی۔ وہاں، مسلم روہنگیا آبادی کے ساتھ سلوک کو امریکہ، فرانس اور ترکی سمیت مختلف حکومتوں کے ساتھ ساتھ ایمنسٹی جیسی این جی اوز نے بھی نسل کشی قرار دیا ہے۔

160 سے زیادہ ممالک نے 1997ء کے اوٹاوا کنونشن میں شمولیت اختیار کی تھی جس میں اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں کی تیاری کی ذخیرہ اندوزی اور منتقلی پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

میانمار ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے سپر پاور امریکہ، روس اور چین کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس کے باوجود ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ دعویٰ ہے کہ بارودی سرنگیں ”روایتی بین الاقوامی انسانی قانون“ کے تحت ممنوع ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment