سری لنکا کے مرکزی بینک کے گورنر کو ملک کی بندش کا خدشہ

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

سری لنکا کے صدر گوتابایا راجاپکشے نے ملک میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے دوران سنگاپور فرار ہونے کے بعد اپنا استعفی بذریعہ ای میل بھیجا ہے۔

خیال ہے کہ وہ مستعفی ہونے سے پہلے سری لنکا چھوڑنا چاہتے تھے تاکہ نئی انتظامیہ کی جانب سے ان کی گرفتاری کے امکانات ختم ہوسکیں۔

ملک میں کھانے پینے کی اشیا، ایندھن اور بنیادی ضروریات کی قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔

دارالحکومت کولمبو میں صدر کے استعفے کی خبر سے مظاہرین خوش ہیں۔ وریگا پریرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم خوش ہیں لیکن اب اس وقفے میں ہم اپنی زندگیوں میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ ہم تھک چکے ہیں مگر یہ لمحہ ہمارے لیے بڑی جیت ہے۔’

راجاپکشے مالدیپ سے جمعرات کو سنگاپور پہنچے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور دو گارڈ ہیں۔

سنگاپور کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ راجاپکشے نے سیاسی پناہ کی درخواست نہیں کی اور نہ ہی انھیں سیاسی پناہ دی گئی ہے۔ ‘سنگاپور عام طور پر سیاسی پناہ منظور نہیں کرتا۔’

قائم مقام صدر رانی وکرما سنگھے حلف تک عبوری صدر نہیں بن سکتے۔ اس کے بعد انھیں 30 روز میں پارلیمان کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ارکان نیا صدر منتخب کریں گے۔

گوتابایا راجاپکشے نے اپنا استعفی بذریعہ ای میل پارلیمنٹ کے سپیکر کو بھیجا ہے۔ سپیکر کا کہنا ہے کہ وہ تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد جمعے کو اس کا اعلان کریں گے۔

بعض لوگ اس حالیہ صورتحال پر پریشان ہیں۔ مظاہرین میں سے ایک سوزیٹ فرنینڈو نے کہا ہے کہ ‘پہلے انھوں نے ہمیں بیوقوف بنایا کہ وہ جا رہے ہیں۔ اب وہی دوبارہ ہو رہا ہے۔ انھیں استعفے کا خط مل گیا ہے لیکن سپیکر اسے قانونی شکل دیں گے۔ مجھے معلوم نہیں وہ کیا قانونی شکل دینے جا رہے ہیں۔ یہ پاگل پن ہے’

تاہم مظاہرین کی تعداد اب کچھ کم ہوگئی ہے۔ وکرما سنگھے نے جمعرات کو دوبارہ کرفیو نافذ کیا تاکہ مظاہرین کو منشتر کیا جاسکے۔

سرکاری عمارتوں سے حکومت مخالف مظاہرین کے جانے کے بعد کولمبو کی گلیوں میں اب کچھ سکون ہے۔

مظاہرین کی ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ‘ہم پُرامن طریقے سے صدارتی محل، صدر کے سیکریٹریٹ اور وزیر اعظم آفس سے جا رہے ہیں۔ لیکن ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔’

بدھ کے مظاہروں کو ایک ہلاکت اور 84 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس روز کولمبو میں مظاہرین نے وزیر اعظم آفس سمیت اہم عمارتوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

سری لنکا کے مظاہرین کو جس چیز کا انتظار تھا وہ ہوچکا ہے: صدر گوتابایا مستعفی ہوگئے ہیں۔

اس خط سے کئی کام ہوئے ہیں۔ پہلا یہ کہ وکرما سنگھے کو قائم مقام صدر رہنے کا قانونی جواز مل گیا ہے۔ سری لنکا کے آئین کے مطابق صدر کے استعفے کے بعد وزیر اعظم عبوری صدر بن سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اب پارلیمان میں نئے صدر کے انتخاب میں رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ ارکان 15 جولائی کو اس عمل کا آغاز کریں گے اور ایک ہفتے میں ووٹنگ کا وعدہ کیا گیا ہے۔

استعفیٰ نہ آنے کی وجہ سے یہ عمل رکا ہوا تھا۔ مگر اب سپیکر پارلیمان کا اجلاس بلا سکیں گے۔

وکرما سنگھے کے علاوہ اپوزیشن رہنما سجیتھ پریمادیسا بھی امیدواروں میں شامل ہیں۔ لیکن حکمراں جماعت کی اکثریت کو مدنظر رکھتے ہوئے وکرما سنگھے کی جیت کے امکان زیادہ ہیں۔ خیال ہے کہ ان کے راجاپکشے خاندان سے اچھے تعلقات ہیں۔

آیا سری لنکا کے عوام انھیں قبول کریں گے، یہ بحث بعد کی ہے۔ صدر کے استعفے کے علاوہ مظاہرین وزیر اعظم کے استعفے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

تیسری بات یہ کہ اس استعفے کا مطلب ہے کہ راجاپکشے کو اب استثنیٰ حاصل نہیں رہی اور یہ اہم ہوگا کہ وہ کس ملک میں محفوظ پناہ لینے کی کوشش کریں گے۔

سری لنکا کے مرکزی بینک کے گورنر نندالال ویراسنگھے نے خبردار کیا ہے کہ اگر جلد ہی کوئی مستحکم حکومت نہ بنی تو ملک ’بندش کر طرف جاسکتا ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کو بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ مل سکتا ہے یا نہیں اس پر بہت ’غیر یقینی صورتحال‘ ہے۔

بہت سے لوگ راجاپکشے حکومت کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ادھر ویراسنگھے، جنھوں نے خود صرف اپریل میں مرکزی بینک کے گورنر کا عہدہ سنبھالا، نے کہا کہ انھیں مستحکم حکومت کے بغیر ضروری اشیا کی فراہمی کے بارے میں ’مشتقبل کا راستہ نظر نہیں آتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس ماہ کے آخر تک ڈیزل کی کم از کم تین کھیپوں اور پیٹرول کی کچھ ایک یا دو کھیپوں کی مالی اعانت کرنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن اس سے آگے، بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال ہے کہ آیا ہم زرمبادلہ بھی فراہم کر پائیں گے۔‘

’اگر ایسا نہیں ہوتا ہے، تو پورا ملک بند ہو جائے گا۔ اس لیے مجھے ایک وزیر اعظم، صدر، کابینہ کی ضرورت ہے، جو فیصلے کر سکے۔ اس کے بغیر تمام مزید مشکلات سے دوچار ہوں گے۔‘

ویراسنگھے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت کر رہے ہیں۔ ’ہمیں امید ہے کہ قرض کے لیے ہماری بات چیت میں اچھی پیشرفت ہو جائے گی۔ لیکن اس عمل کا وقت اس بات پر منحصر ہے کہ کتنی جلد ایک مستحکم انتظامیہ ہوگی۔‘

انھوں نے مشورہ دیا کہ ایک بار جب ایک مستحکم حکومت قائم ہو جائے تو سری لنکا کہیں نہ کہیں ’تین یا چار یا پانچ ماہ کے اندر بحران سے نکل سکتا ہے۔‘

مرکزی بینک کے گورنر کو خود ایک ممکنہ نئے صدر کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ لیکن وہ اس بات کو مسترد کرتے ہوئے نظر آئے۔ ’مجھے کوئی سیاسی عہدہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘

Share This Article
Leave a Comment