پاکستان میں عدالتیں سیکورٹی اداروں کو جبری لاپتا کرنے سے نہیں روک سکے،ہیومن رائٹس واچ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پاکستانی عدالت کے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ ایک بہترین موقع ہے کہ حکومت ثابت کرے کہ وہ جبر گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے اور عوام کی حفاظت کے لیے قوانین پر عمل پیرا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام بشمول قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فوجداری عدالتی نظام، ان جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے سیاسی عزم ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ جب اس بات کے واضح شواہد ہوں کہ کسی شخص کو جبری لاپتا کیا گیا ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ لاپتا شخص کو بازیاب کرائے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے جبری لاپتا کیے گئے سینکڑوں افراد کی رہائی کی امید پیدا ہوئی ہے۔

پیٹریشیا کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ماضی میں عدالتوں کی طرف سے دیے گئے فیصلوں کی سیریز کا حصہ ہے۔البتہ ایسے فیصلے سیکیورٹی اداروں کو خفیہ حراست اور جبری لاپتا کرنے سے نہیں روک سکے۔ مارچ 2011 سے اب تک جبری گمشدہ افراد کے حوالے سے قائم کمیشن کو اب تک آٹھ ہزار 463 شکایات موصول ہوئی ہیں جب کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس ے کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے شکار افراد عام طور پر معاشرے کے محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص جبری طور پر لاپتا ہوجائے تو اس پر تشدد یا اس کے ماورائے عدالت قتل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی محسوس کیا ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے مارچ 2011 میں قائم ہونے کمیشن متاثرہ افراد کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ کمیشن ان جبری گمشدگیوں کے ذمہ داران کو انصاف کی فراہمی کے بجائے اب تک ایک تہائی افراد کو بازیاب کراسکا ہے اور کسی بھی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکام بشمول قانون نافذ کرنے والے ادارے اور کریمنل جسٹس سسٹم ان گمشدگیوں کے خاتمے کے لیے سیاسی عزم ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ جنوری 2021میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کسی شخص کے جبری لاپتا ہونے پر وزیرِ اعظم اور کابینہ ذمہ دار ہوتے ہیں جب کہ اکتوبر 2017 میں سپریم کورٹ نے وزارتِ داخلہ کو تمام لاپتا افراد سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کا کہا تھا لیکن اس کے باوجود جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

Share This Article
Leave a Comment