سری لنکا میں لاکھوں ملازمین نے ہڑتال کر دی ہے اور ملک بھر میں سیاہ پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔
صدر گوٹابایا راجاپکسے نے جمعے کے روز سری لنکا میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے ساتھ ہی فوج کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف ملک اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے اور اس پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف عوامی غم و غصے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی اب فوج بدامنی پر قابو پانے کے نام پر کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے یا حراست میں لے سکتی ہے۔
جمعے کے روز پورے سری لنکا میں دفاتر، فیکٹریاں اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رہے اور معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے۔ مالیاتی بحران کو قابو کرنے میں حکومت کی ناکامی کے خلاف بطور احتجاج سرکاری اور نجی سیکٹر کے لاکھوں ورکروں نے ملک گیر ہڑتال میں حصہ لیا۔
ہڑتال کی اپیل ٹریڈ یونینوں اور شہری تنظیموں نے کی تھی۔ یہ لوگ صدر راجاپکسے سے اپنے عہدے سے دست بردار ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم صدر نے اب تک اس پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔
تقریباً تمام سرکاری اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ سروسز منسوخ ہیں۔ سری لنکا کے سب سے بڑے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں 3000 ہزار سے زائد فیکٹری ورکرز نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا۔
ایک ٹریڈ یونین لیڈر روی کمودیش کا کہنا تھا، ”ہم صدر کے ہر غلط فیصلے کی تفصیل بتا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری معیشت کی یہ تباہ کن صورت حال ہوئی ہے۔ انہیں تو جانا ہی ہوگا۔“
مظاہرین تقریباً ایک ماہ سے کولمبو میں صدارتی دفتر کے باہر مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی مسلسل بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ صدر راجاپکسے نے تاہم ان مظاہروں کے باوجود اپنے عہدے سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
جمعرات کے روز طلبہ کے ایک گروپ نے قومی پارلیمان کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے آنسو گیس کے شیل داغ کر ان کی کوششیں ناکام بنا دیں۔
حکومت کی بدنظمی اور کورونا وائرس نے سری لنکا کو سن 1949میں آزادی ملنے کے بعد سے اب تک کے سب سے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
مالی بحران کی وجہ سے ایندھن، خوراک اور ادویات کی قلت ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں ایک طرف مسلسل لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے دوسری طرف عوام کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔
سری لنکا کی اپوزیشن پارلیمان میں راجاپکسے کو ان کے عہدے سے برطرف کرانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
اپوزیشن لیڈر سجیت پریم داسا نے کہا کہ وہ اگلے ہفتے صدر اور ان کی حکومت کے خلاف پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کریں گے۔
صدر راجاپکسے گوکہ ایک اتحادی حکومت کے قیام کے سلسلے میں متعدد اپیلیں کر چکے ہیں لیکن انہوں نے اقتدار سے دست بردار ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔
گزشتہ ماہ راجاپکسے نے اپنی کابینہ میں رد و بدل کی تھی اور اپنے خاندان کے کئی افراد کو وزارتی عہدوں سے ہٹا دیا تھا لیکن اپنے بھائی مہندا راجاپکسے کو وزیر اعظم کے طور پر اب تک برقرار رکھا ہے۔
حکومت نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں اور وہ قرضوں کی واپسی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔سری لنکا کے نئے وزیر خزانہ علی صابری نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ ملک کو درپیش اقتصادی مشکلات اگلے دو برس تک برقرار رہیں گی۔