سری لنکا میں ڈاکٹروں نے متنبہ کیا کہ زندگی بچانے والی دوائیں تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اقتصادی بحران کے سبب اس سے کہیں زیادہ اموات ہوسکتی ہیں جتنی کورونا وائرس کی وبا سے ہوئی تھیں۔
سری لنکا 1948میں اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے سنگین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ جبکہ خوردنی اشیاء، ایندھن اور دواؤں کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
سری لنکا میڈیکل ایسوسی ایشن (ایس ایل ایم اے) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ہسپتالوں میں امپورٹیڈ طبی ساز و سامان اور اہم دوائیں تقریباً ختم ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ماہ سے ہی متعدد شعبوں میں معمول کی سرجری معطل کردی گئی ہے کیونکہ ہسپتالوں کے پاس اینستھیسیا تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ایس ایل ایم اے کا مزید کہنا ہے کہ مریضوں کی ایمرجنسی سرجریاں بھی عنقریب ممکن دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔
ایس ایل ایم اے نے اس صورت حال سے صدر گوٹابایا راجاپکسے کو معطلع کرنے کے لیے ایک خط بھیجنے کے بعد اتوار کے روز بتایا،”ہمیں بہت سخت فیصلے کرنے پڑرہے ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ کس کا علاج کریں اور کس کا علاج نہ کریں۔”
ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ”اگر چند دنوں کے اندر ضروری طبی اشیاء کی سپلائی شروع نہیں ہوئی تو ہلاکتوں کی تعداد کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہوں گی۔”
اقتصادی بحران کی وجہ سے عوام میں غصہ بڑھتا جارہا ہے اور راجا پکسا سے استعفی دینے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔
دارالحکومت کولمبو میں مسلسل دوسرے روز ہزاروں لوگوں نے موسلادھار بارش کی پرواہ کیے بغیر صدارتی دفتر کے باہر مظاہرے کیے۔
کاروباری رہنماؤں نے بھی صدر راجا پکسے سے اپنا عہدہ چھوڑ دینے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں ایندھن کے سخت بحران نے ان کے کاروبار کو معطل کردیا ہے۔
راجا پکسے کی حکومت نے سری لنکا کو اس بحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج کی درخواست کی ہے۔
نئے وزیر خزانہ علی صابری نے جمعے کے روز پارلیمان کو بتایا کہ انہیں آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کی مدد ملنے کی امید ہے۔
غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے سری لنکا کو 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کی ادائیگی میں کافی پریشانیاں آرہی ہیں۔ کورنا وائرس کی وبا نے اس کی آمدنی کے سب سے اہم ذریعہ سیاحت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے اقتصاد ی بحران کی بڑی وجہ حکومت کے بدنظمی، بڑے پیمانے پر قرض لینا اور ٹیکسوں میں رعایت کے غلط مشورے پر عمل کرنا ہے۔