فرانس میں صدارتی الیکشن جاری، میکرون کو سخت مقابلے کا سامنا

0
195

فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کو صدارتی انتخاب میں دائیں بازو کی مارین لے پین سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جہاں ووٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

فرانسیسی ووٹرز نے ملک کے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں اتوار کو ملک بھر میں پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، موجودہ انتخابات کئی مہینوں تک فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے لیے آسان نظر آرہے تھے لیکن اب دائیں بازو کی مارین لے پین کی جانب سے انہیں سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی ‘اے پی’ کی خبر کے مطابق مرکزی سوچ رکھنے والے ایمانوئیل میکرون دوسری 5 سالہ مدت کے لیے فرانس کے ووٹروں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے راستے میں 11 دیگر امیدواروں اور ووٹروں کی عدم توجہی حائل ہے۔

کئی فرانسیسی شہری ایمانوئیل میکرون پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ خوراک، ایندھن اور حرارت کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کر سکے یا انہوں نے یوکرین کی جنگ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے دوران اپنے ملک کے اندرونی معاملات اور خدشات کو نظر انداز کیا۔

یورپی یونین کی مشرقی سرحد پر جنگ چھڑنے کے ساتھ حالیہ فرانسیسی صدارتی انتخابات کے اہم بین الاقوامی اثرات ہوسکتے ہیں، جن میں جنگ کے بعد سامنے آنے والے حالات میں یہ بات واضح ہوگی کہ فرانس کے حوالے سے یورپی پاپولزم بڑھ رہا ہے یا زوال کی جانب گامزن ہے۔

جرمنی کے بعدفرانس 27 رکنی نیٹو بلاک کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جبکہ یہ واحد نیٹو ملک ہے جس کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ویٹو پاور اور جوہری طاقت ہے۔

دوسری جانب سے یوکرین پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اپنی فوج کے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اس دوران فرانس یورپ کے ردعمل کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور ایمانوئیل میکرون واحد سرکردہ صدارتی امیدوار ہیں جو نیٹو فوجی اتحاد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اتوار کو ہونے والے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدوار 24 اپریل کو فیصلہ کن انتخابی مرحلے کی جانب بڑھیں گے۔

اگر ان دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک امیدوار نے اتوار کو ملک بھر میں آدھے سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کیے تو دونوں امیدوار اگلے مرحلے میں مد مقابل ہوں گے۔

اب تک فرانس کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ابتدائی مرحلے میں ہی کسی امیدوار نے آدھے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں۔

فرانس میں ووٹنگ بیلٹ پیپرز کے ذریعے ہوتی ہے، ووٹر ذاتی طور پر ووٹ ڈالنے کے پابند ہیں، جو لوگ ایسا نہیں کر سکتے وہ وقت سے پہلے کسی اور کو ووٹ دینے کا اختیار دینے کے انتظامات کر سکتے ہیں۔

اپریل کی سخت سردی کی پروا کیے بغیر کئی ووٹرز اتوار کو جنوبی پیرس کے ایک پولنگ اسٹیشن کے کھلنے سے پہلے ہی قطار میں کھڑے ہو گئے تھے اور جب پولنگ شروع ہوئی تو اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔

کوڈ-19 کے حفاظتی انتظامات کو مد نظر رکھتے ہوئے رائے دہندگان میں سے بہت سے لوگوں نے ماسک پہنے ہوئے تھے اور بہت سے لوگ ہینڈ جیل کا استعمال کر رہے تھے۔

دوپہر تک فرانس کے صرف ایک چوتھائی رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے تھے جو گزشتہ انتخابات سے کچھ کم تھے، ووٹنگ سے پہلے سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ووٹنگ کے دوران کم ٹرن آؤٹ ایمانوئیل میکرون کی جیت کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن اس سے ان کی حریف امید وار مارین لے پین کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

موجودہ فرانسیسی صدر گزشتہ کئی مہینوں تک انتخابات کو جیتنے کے لیے اتنے مضبوط امیدوار لگ رہے تھے جو 20 برسوں میں دوسری مدت کے لیے فرانس کے مقبول ترین صدر بن سکتے ہیں لیکن مہم کے اختتامی مراحل میں یہ منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔

فرانس میں مہنگائی اور گیس، خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کم آمدنی والے گھرانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے، یہ صورت حال مہنگائی سے پریشان ووٹروں کو ایمانوئیل میکرون کی سیاسی حریف مارین لے پین کو ووٹ دینے پر مجبور کرسکتی ہے۔

اس سے قبل 2017 میں ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سب سے کم عمر صدر بننے کے لیے لی پین کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی، 44 سالہ سابق بینکر کی جیت کو پاپولسٹ، قوم پرست سیاست کے خلاف جیت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، ان کی جیت ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کے لیے انتخاب اور 2016 میں یورپی یونین سے نکلنے کے لیے برطانیہ کے ووٹ کے تناظر میں سامے آئی تھی۔

کچھ روز قبل ہی پاپولسٹ وکٹر اوربان کے ہنگری کے وزیر اعظم کے طور پر مسلسل چوتھی بار انتخاب جیتنے کے بعد، اب نظریں فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کی طرف مبذول ہو گئی ہیں، خاص طور پر نیشنل ریلی لیڈر مارین لے پین پر، جو فرانس کی سڑکوں پر مسلمانوں کے سر پر اسکارف پہننے، حلال کھانے اور کوشر قصاب پر پابندی لگانا چاہتی ہیں اور یورپ کے باہر سے آنے والے مہاجرین کی آمد کو کافی حد تک کم کرنا چاہتی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایمانوئیل میکرون جیت جاتے ہیں تو اسے یورپی یونین کی فتح کے طور پر دیکھا جائے گا، جس نے یوکرین پر روس کے حملے کے جواب میں غیر معمولی اتحاد کا مظاہرہ کیا، ان کا دوبارہ انتخاب یورپی سلامتی اور دفاع میں تعاون اور سرمایہ کاری میں اضافے کے حقیقی امکانات واضح کرے گا-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here