سری لنکا میں گذشتہ روز ہفتہ نو اپریل کو ہزارہا شہری ملک کے مختلف شہروں میں صدر راجا پاکشے کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرین ملک میں جاری سیاسی بحران اور ناقابل یقین حد تک مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
کولمبو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آج کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے، ملک میں صدر گوٹابایا راجا پاکشے کے خلاف آج تک کیے جانے والے سب سے بڑے مظاہرے تھے۔ اس دوران عام شہری ملک میں پائے جانے والے بحرانی سیاسی حالات اور ہوش رُبا حد تک مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
جنوبی ایشیا کی 22 ملین کی آبادی والی جزیرہ ریاست سری لنکا میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نہ صرف ریکارڈ حد تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے بلکہ اشیائے خوردنی کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا کو آج جس کثیر الجہتی بحرانی صورت حال کا سامنا ہے، اسے اس ملک کو درپیش 1948ء میں اس کی آزادی سے لے کر آج تک کے شدید ترین بحران کا نام دیا جا رہا ہے۔
سری لنکا میں حکومت کے خلاف یہ مظاہرے گزشتہ ماہ شروع ہوئے تھے اور آج زیادہ تر سوشل میڈیا پر کیے جانے والے اعلانات کے بعد عوامی سطح پر اہتمام کردہ احتجاجی مظاہروں میں عوام کی سب سے بڑی تعداد نے حصہ لیا۔
اس دوران دارالحکومت کولمبو میں ہزاروں کی تعداد میں مرد اور خواتین مظاہرین شہر کے ساحلی علاقے میں جمع ہوئے اور انہوں نے اپنے طور پر نوآبادیاتی دور میں تعمیر کردہ صدارتی سیکریٹیریٹ کا محاصرہ بھی کر لیا۔ یہ ہزاروں مظاہرین سری لنکا کے قومی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور صدر گوٹابایا راجا پاکشے کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ‘گوٹا گو ہوم‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔
اس کے علاوہ کولمبو اور کئی دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے مظاہروں کے دوران شرکاء ایسے نعرے بھی لگا رہے تھے، جن میں صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جا رہا تھا: ”بس بہت ہو گیا“، ”وقت آ گیا ہے کہ اب صدر گھر چلے جائیں۔“
اِن مظاہروں میں شریک ایک شہری نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”یہ ہزاروں مظاہرین وہ معصوم شہری ہیں، جنہیں اب اپنے زندہ رہنے کے لیے بھی مسلسل جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ اس حکومت کو لازمی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے اور کسی نئے باصلاحیت رہنما کو ملک کا انتظام سنبھالنا چاہیے۔“
سری لنکا میں موجودہ صدر راجا پاکشے کی انتخابی مہم کے لیے رقوم ماضی میں زیادہ تر ملکی کاروباری طبقے نے مہیا کی تھیں۔ اب لیکن یہ کاروباری طبقہ بھی صدر سے ناراض ہے اور اس بات کی شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ حکومت نے اشیائے خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام شہریوں کو بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے۔
ربڑ کی مصنوعات تیار اور برآمد کرنے والے صنعتی کاروباری اداروں کی قومی سری لنکن تنظیم کے سربراہ روہن ماساکورالا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران تو کسی بھی صورت جاری نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ صرف ایک ہفتے کے اندر اندر ایک عبوری حکومت اور نئی ملکی کابینہ کی ضرورت ہے۔“
سری لنکا میں کاروباری طبقے کی یہ قومی اور دیگر اقتصادی شعبوں کی ایسی ہی کم از کم 22 دوسری ملک گیر کاروباری تنظیمیں بھی یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ملکی حکومت اب تبدیل ہونا چاہیے۔
اقتصادی ماہرین کا اندازہ ہے کہ پورے ملک میں صرف ایندھن کی قلت کی وجہ سے ہی قومی معیشت کو پہنچنے والا یومیہ نقصان تقریباً 50 ملین ڈالر ہو چکا ہے۔