سری لنکا میں سخت معاشی بحران کے خلاف مظاہروں کے بعد سابق اتحادیوں کی جانب سے صدر پر مستعفی ہونے کے لیے زور دیے جانے کے بعد سری لنکن صدر پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق 1948 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد موجودہ صورتحال کے باعث سخت تکلیف دہ معاشی حالات ہیں، ریکارڈ مہنگائی اور بلیک آؤٹ کے ساتھ خوراک اور ایندھن کی بے مثال قلت کے باعث ملک میں تکلیف دے صورتحال ہے۔
سری لنکن صدر گوٹابایا راجاپاکسے کا طاقتور حکمران اتحاد اراکین کی جانب سے منحرف ہونے کے بعد مشکل اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے جبکہ گزشتہ روز نئے وزیر خزانہ نے عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک دن بعد ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔
دوسری جانب گوٹابایا راجا پاکسے کے خلاف مظاہرے مسلسل پانچویں روز بھی جاری رہے جبکہ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر مظاہروں کے دروان پرتشدد کی گئیں تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔
وزارت دفاع کے سیکریٹری کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز تشدد میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گی۔
جمعے سے اب تک 60 سے زائد افراد کو بے امنی پھیلانے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا جبکہ متعدد افراد کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا کہنا ہے کہ اس نے سری لنکا کی بگڑتی صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے جبکہ ملک کو پہلے ہی انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے باعث عالمی سنسرشپ کا سامنا ہے۔
یواین ایچ آر سی کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ سری لنکا میں موجودہ صورتحال کے دوران عسکری حل کی جانب رجحان اور ادارہ جاتی چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے کمزور ہونے نے معاشی بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی ریاست کی صلاحیت کو متاثر کیا۔
معاشی بحران کے باعث سری لنکا میں عوام میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے جہاں گزشتہ ہفتے مشتعل افراد نے متعدد سینئر سرکاری اہلکاروں کے گھروں پر دھاوا بولنے کی کوشش کی۔
حکمراں اتحاد سے الگ ہونے والے اور صدر کے استعفیٰ میں شامل ہونے والے ایک آزاد رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ابھی فوری طور پر عمل نہیں کیا تو ملک میں خون کا دریا بہے گا، اس وقت ہمیں پارٹی سیاست کو بھول کر عبوری حکومت کو یقینی بنانا ہو گا۔
منگل کے روز ہونے والا پارلیمانی اجلاس اس صورتحال کے بعد پہلا تھا جب درجنوں ممبران پارلیمنٹ نے گوٹابایا راجا پاکسے کی حکومت کی حمایت سے دست برداری کا فیصلہ کیا تھا، حمایت واپس لینے والوں میں ان کی اپنی سری لنکا پوڈوجانا پارٹی (ایس ایل پی پی) کے 16 اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں۔
225 ارکان پر مشتمل ایوان میں حکومت کو اکثریت سے کم از کم پانچ کم کی حمایت حاصل ہے، تاہم، ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں ملا ہے کہ اراکین اسمبلی حکومت کو گرانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کریں گے۔
اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی گوٹابایا راجا پاکسے اور ان کے بڑے بھائی وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے کی قیادت میں اتحاد حکومت میں شامل ہونے کے مطالبے کو مسترد کر چکی ہیں۔
سری لنکن حکومت نے سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے گزشتہ ہفتے ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی، لیکن پارلیمں ٹ سے توثیق نہ ہونے کی صورت میں یہ آرڈیننس اگلے ہفتے ختم ہو جائے گا۔
راجا پاکسے کی حکومت کو چھوڑنے والے سابق وزیر نمل لانزا نے اعتراف کیا کہ حکمران جماعت کے پاس اب حکومت کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
صدر اور وزیر اعظم کے سوا سری لنکا کی کابینہ کے تمام ارکان نے اتوار کو استعفیٰ دے دیا تھا۔
سابق وزیر انصاف کو پیر کے روز صدر کے بھائی باسل راجا پاکسے کی جگہ وزیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن عہدے پر رہنے کے صرف ایک روز بعد ہی انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔