بی ایس او کے سابق چیئرمین اور بی این ایم رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر اپر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ”پاکستان میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ریاست خود اس جرم کی ذمہ دار ہے۔ فرض کریں کہ ایسا کوئی بل پاس ہو بھی جائے تو اسے کبھی نافذ نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ، اسے انسانی حقوق کی تنظیموں کے بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے دھوکہ دہی سے استعمال کیا جائے گا جیسے کہ جبری گمشدگی پر انکوائری کمیشن کا استعمال کیا جا رہا ہے۔“
”حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تمام بڑی پارلیمانی جماعتیں، چاہے وہ حزب اقتدار کے بنچوں پر ہوں یا حزب اختلاف میں، 2000 میں جبری گمشدگیوں کے آغاز سے ہی حکومتوں کا حصہ رہی ہیں لیکن ان میں سے کسی نے ایک بھی مجرم کا احتساب نہیں کیا۔ اس کے بجائے وہ جبری گمشدگی کے جرم میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ بلوچ قوم کے لیے پارلیمانی جماعتوں سمیت تمام ریاستی ستون جبری گمشدگیوں کے لیے برابر کے ذمہ دار ہیں۔“