انسانی حقوق کے انٹر نیشنل ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کے روز شائع کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تیگرائی جنگجوؤں نے شمالی ایتھوپیا کے امہارا خطے کے دو قصبوں میں درجنوں افراد کا دانستہ قتل کیا اور عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ تیگرائی پیپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کے جنگجووں نے امہارا خطے کے دو قصبات کوبو اور چینا پر گزشتہ برس جولائی میں قبضہ کرلیا تھا۔ ان علاقوں پر قبضے کے بعد اگست کے اوآخر اور ستمبر کے مہینے میں ان جنگجووں نے تشدد اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کردیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی یہ رپورٹ ان دونوں علاقوں میں تشدد کا شکار ہونے والے متعدد افراد سے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی ہے۔
تیگرائی جنگجووں نے امہارا ملیشیا کے ہاتھوں اپنے ساتھیوں کی موت کا بدلہ لینے کے لیے غیر مسلح شہریوں کو قتل کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کوبو علاقے میں 27 افراد سے بات چیت کی۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ تیگرائی جنگجووں نے ان کے رشتہ داروں اور دیگر اقارب کو ان کے گھروں کے باہر ہی قتل کردیا۔ بعض دیگر افراد کا کہنا تھا کہ انہیں مقامی رہائشیوں کی لاشیں ملی تھیں۔ ان لوگوں کوسر اور پیٹھ میں گولی ماری گئی تھی۔ جیسا کہ عام طور پر یہاں سزائے موت دیتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
ایک شخص نے بتایا کہ بعض لوگوں کو سر میں اس طرح گولی ماری گئی کہ ان کا چہرہ پوری طرح مسخ ہوگیا جس کی وجہ سے ان کی شناخت نہیں ہوسکی۔
ٹی پی ایل ایف کے جنگجوؤں نے چینا کے ایک گاوں میں درجنوں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ ان میں سے بیشتر کو ان کے گھروں میں ہی جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جنگجووں نے ان خواتین کو کھانا پکانے اورانہیں کھلانے کے لیے بھی مجبور کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چینا میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی تقریباً 30خواتین سے بات چیت کی۔ ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کے سامنے ہی ان کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا۔ ایمنسٹی نے نوعمر لڑکیوں کی جنسی زیادتی کے ہولناک واقعات کی تفصیلات بھی شائع کی ہیں۔ ان میں سے بعض بچیاں 14برس کی تھیں۔
رپورٹ میں ایک 14سالہ بچی کی المناک روداد شامل ہے، جس کے ساتھ اس کے گھر کے آنگن میں ہی ریپ کیا گیا جبکہ اس کی ماں کے ساتھ کمرے میں جنسی زیادتی کی گئی۔ بچی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد سے ہی اس کی ماں ڈپریشن میں چلی گئی ہے اور وہ کسی سے بھی اس بارے میں بات نہیں کرتی ہیں۔
رپورٹ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ سن 2020میں تیگرائی خطے میں ایتھوپیا کی فوج اور ملیشیا کے درمیان ہونے والی جنگ کے نتیجے میں بربریت کس انتہا کو پہنچ گئی۔
بعض علاقوں پر تیگرائی جنگجوؤں کے کنٹرول حاصل کر لینے کے بعد دسمبر 2021میں ٹی پی ایل ایف کے جنگجووں نے کہا تھا کہ وہ ایتھوپیا کے متعدد علاقوں سے واپس لوٹ کر تیگرائی جا رہے ہیں۔
ایک روز قبل ہی ایتھوپیا کی حکومت نے کہا کہ وہ ملک میں پہلی مرتبہ نافذ ایمرجنسی واپس لے رہی ہے۔ نومبر میں کئی اہم قصبات پر تیگرائی جنگجووں کے قبضہ کر لینے کے بعد حکومت نے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ ایمرجنسی ختم کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ خونریز تصادم میں کمی آسکتی ہے۔
اقوام متحدہ اور ایتھوپیا کی جانب سے ایک مشترکہ تفتیش کے بعد گزشتہ نومبر میں ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایتھوپیائی فوج سمیت تمام فریقین نے جو خلاف ورزیاں کی ہیں وہ جنگی جرائم کے مترادف ہے۔
اس تصادم میں ہزاروں شہری اب تک ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ پچیس لاکھ سے زائد افراد کو جان بچانے کے لیے اپنا گھر چھوڑ نا پڑا ہے اور چار لاکھ کے قریب لوگ قحط سے دوچار ہیں۔