معلم سماج کا سب سے زیادہ افضل و باعث تکریم ہستی، معلم روحِ انسانی کو روشن کرنے والا، معلم فطرت سے آشنا کرنے والا، معلم گمراہ ذہنوں کو راہ حق کا متلاشی بناتا ہے، معلم نہ صرف سماج کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے بلکہ سماج میں رہنماؤں کی ایسی لڑی تشکیل دیتا ہے جس سے عفریت کے جنازیں نکلیں۔ معلم، معلم ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ، فقط یہی وہ ہستی ہے جو سماج کی تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیے خود کو فنا مگر اپنی تدریس سے فکر کو زندہ و جاویداں رکھتا ہے۔
ایک چینی کاوت ہے کہ ”علم فکر کی غذا ہے اور جب خوراک فنا ہوتی ہے تو خیالات برقرار رہتے ہیں۔اور اساتذہ ہی ہیں جو پوری دنیا کو کئی گنازیادہ کھلاتے ہیں۔“
بلوچ معاشرے میں اپنے شاگردوں کو فکر کی غذا کھلانے والے عظیم ہستیوں میں استاد علی جا ن کا نام بھی شامل ہے، جنہوں نے اس سماج کوجو نوآبادیاتی شکنجوں میں بری طرح جکڑ چکا ہے، ایسی خوراک مہیا کی جس سے آج بھی لوگ پوری طرح مستفید ہورہے ہیں اور استعمارکے خلاف نا قابل بیان کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔
قادربخش اور اماں صاحبی کے اس لال کا جنم ”جاءِ آہو“ کے ایک بستی دارو کوچگ میں ہوا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی جبکہ مڈل اور میٹرک کی تعلیم ہائی سکول کورک جاءِ آہوسے حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے عشق نے انہیں لسبیلہ کیا جانب گامزن کیا اور یوں ڈگری کالج لسبیلہ سے انہوں انٹرمیڈیٹ کی ڈگری حاصل کی۔
مزید تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کے آگے غربت دیوار بن گئی لہذا انہوں نے اپنے عشق(علم) کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تدریس کا شعبہ اختیار کیااور آبائی علاقہ میں جے وی ٹیچر تعینات ہوا۔ لیکن سلسلہ حصول تعلیم جاری رہا اور یوں آگے چل کر آپ نے بلوچستان یونیورسٹی سے گریجویشن(BA)اور از بعد بی ایڈکی ڈگری حاصل کی۔
قا بض ریاست کے نظام تعلیم کا باریک بینی سے مشاہدہ آپ کو اس نہج پہ پہنچایا کہ آپ بینکنگ نظام تعلیم میں اجتماعی موت کا عکس دیکھ سکتے تھے اسی لیے آپ کمرشل ایجوکیشن سسٹم سے سخت نالاں تھے۔ آپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ شاگردوں کو اس نظام سے ہٹ کر حقیقی تعلیم کی جانب گامزن کیا جائے، یعنی وہ اس نظریے کا حامی تھا کہ سیکھنے کی ابتداء اگرچہ کلاس روم سے شروع ہوتی ہے لیکن انجام وہاں ہوتا ہے جہاں شاگرد زندگی کے مقصد سے آشنا ہوں۔اور ایک غلام قوم کی زندگی کا اہم مقصد حصول آزادی ہوتا ہے لہذا آپ کی کاوش یہی تھی کہ طلبا زندگی کے اس اہم پہلو (آزادی) کی حقیقت اور اس میں چھپے راز سے آگاہ ہوں کہ قوموں کی تعمیر وترقی کے لیے آزاد سماج کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ غلامی سے نفرت اور گلوخلاصی کے لیے وہ ہمیشہ سقراطی طرزیعنی طلبا سے سولات کرنا اور ان کے جوابات تلاش کرنے میں ان کی مدد کرنے کے ساتھ انہیں مزید سوالوں کے لیے متحرک کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا تھا، یہ عمل نہ صرف کمرہ تدریس تک محدود تھا بلکہ سماج کی جس محفل میں بھی جاتا مفلوج ذہنوں میں زندگی کی اصل حقیقت جاننے کے بارے میں نہ صرف آگہی دلاتا بلکہ انہیں زندگی کی اصل روح کے بارے میں سوچنے پہ بھی مجبور کرتا۔ اس ضمن میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوا جس کا عکس ہم آج جاءِ آہو کے فرزندوں میں دیکھ سکتے ہیں جو جہدِآزادی میں متحرک کردار کی وجہ سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ شہید استاد علی جان بلوچ کی اس سوچ کوکہ سماج کو کیا اور کیسے پڑھا نا چاہیے جو اسے محدود سے لامحدود کی جانب گامزن کرے شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے اپنے مضمون”مجھے کتاب چاہیے“ میں مدلل انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ”2003ء کو میں بگا نی ذیلگ جا ئے آہومیں بطو ر میڈیکل آفیسر ڈیوٹی دے رہا تھا کسی سفر میں علی جا ن کو دیکھا دیکھتے ہی تعلیمی بحث چھیڑ ا پڑھا ئی کے طر یقہ کا ر پر اعتز اضا ت تنقید کا سلسلہ جا ری رہا آپ بینکنگ ذریعہ تعلیم سے سخت نا لاں تھے اس سے طا لب علموں کی ذہنی صلاصیت بہ نسبت ایک فعال کر دار کے مفلوج ہو تا ہے اور ذہنی صلاحیتیں مفقو د ہو جا تی ہیں۔“ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کردار میں ہمہ وقت انقلابی معلم یا سقراطی عکس گردشاں رہتا۔
آپ کے نظریہ تعلیم کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں کنفیوشس کی شبیہ بھی دکھائی دیتی ہے جس کا کہنا تھا کہ”علم رہنماؤں کو طاقت دیتا ہے، کامیابیاں حاصل کرتا ہے، اور دریافتوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہر سنگ میل پر پہنچنے کے ساتھ ہی نظریں افق سے پرے طے ہوتی ہیں جو آ گے کے سفر کے لیے امید اور سکون لاتی ہیں۔“ رہنماؤں کی یہ طاقت، کامیابیوں کا سنگِ میل، تخلیقی ذہنیت اور وسیع سوچ کے حامل یعنی جہاں عام انسانوں کی سوچ اپنے انجام کو پہنچیں وہاں سے ان کی سوچ شروع ہوتی ہے، یہ یقیناً بینکنگ نظام ِ تعلیم میں ممکن نہیں البتہ ہزاروں میں شاید کوئی ایک علی جان پیدا ہو جو ایسے نظام کی پیداوار ہونے کے باوجود اس نظام کو نہ صرف اجتماعی موت قرار دے بلکہ اس سے متضاد نظام کو سماج میں پروان چڑھانے میں بھرپور کردار بھی ادا کرے۔
شہید استاد علی جان کی عملی جدوجہد کی بنیادیں علم کے ستونوں پہ قائم تھا۔ حقیقی علم کی روشنی انہوں نے قلم، زبان اور عمل سے پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔جب 2004ء میں انہوں نے بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM)میں شمولیت اختیار کیا تو بقول شہید ڈاکٹر منان بلوچ ”علی جان کے ساتھ صر ف دو دوست تھے“ اور کچھ عرصے بعد پورا علاقہ آزادی پسندوں کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ وہ چاہے جاءِ آہو میں منعقد ہونے والے اجلاس ہوں، 2010ء کا جماعتی کونسل سیشن یا آج علاقے میں آزادی کے گیت گنگنانے والے، اس سماج کو اس نہج پہ پہنچانے والا بلوچوں کا سقراط شہید استاد علی جان بلوچ تھا جس نے اگر چہ مختصر مدت تک جدوجہد کی لیکن وہ معاشرہ جو سرکاری سرداروں، مذہبی جنونیوں اور ستر کی دہائی سے سرکاری کاسہ لیسوں کا گڑھ بن چکا تھا اپنے علم و فکر اور آئے روز کی محنت سے ایسی روح پر ور غذائیں مہیا کیں جن کا عملی نظارہ قابض کی بربریت کے باوجود ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
استاد علی جان بلوچ کا کردار دیکھ کر دل سے یہ آہ! نکلتی ہے کہ کاش! 19 اپر یل 2013ء کا دن ہی کبھی نہ آتا اورہم علی جان کے عمل سے مستفید ہوتے رہتے، کاش کہ وہ سورج کبھی طلوع نہ ہوتا اور ہم جیسے چھوٹے ذہن آج بھی ایک بڑے ذہن کے مالک انسان کواپنے درمیان دیکھ پاتے۔۔۔کاش۔۔۔کاش کہ ایسا ہوتا۔ پر یہ آفاقی حقیقت کے کہ ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن لمبی مسافت پہ جانا ہے۔ وہ داعی اجل کو لبیک کہنے سے پہلے اپنے کردار اور عمل و فکر سے ہمیں یہ درس دے گیا جس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ”معلم کیا ہے، اس سے زیادہ اہم کیا ہوسکتا ہے کہ وہ سکھاتا ہے۔“ اب یہ کارواں کا فرض ہے کہ وہ سیکھنے اور سکھانے کے اس عمل کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں یہی دراصل استاد علی جان بلوچ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا سب بہترین طریقہ کا ر ہے تاکہ شہید کا روح ہمیشہ شادماں رہے۔
٭٭٭