بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں منگل کے روز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کی مناسبت سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کے زیراہتمام تربت پریس کلب سے ریلی نکالی گئی۔
ریلی میں شریک شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز، بینرز اور کریمہ بلوچ کی تصویریں اٹھا کر مختلف سڑکوں پر مارچ کرتے شہید فدا چوک پر مظاہرہ کیا۔
اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ادیب اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ٹاسک فورس مکران کے کوارڈینیٹر غنی پرواز، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کے رکن کریم شمبے، سَہیلہ بلوچ، خلیفہ برکت، سہتی بلوچ اور دیگر نے کہا کہ بانک کریمہ، بلوچ جدوجہدکی علامت اور ایک روشن مینار ہیں جو بھٹکے ہوؤں اور مایوس لوگوں کو راہ دکھاتی اور انہیں حوصلہ دلاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو جدوجہد کریمہ بلوچ نے شروع کی تھی آج اس کے کاروان کے ہمسفر بڑھ چکے ہیں، بانک آج جدوجہدکی علامت بن چکی ہے، بلوچ خواتین بانک کریمہ کی تقلید کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
مقررین مزید کہا کہ کریمہ بلوچ نے بی ایس او کی کمان اس وقت سھنبالی جب بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ لاپتہ کردیئے گئے اور تنظیم دو دھڑوں میں تقسیم ہونے لگی تھی لیکن اس باہمت لیڈر نے تنظیم کو سھنبالا اور بی ایس او کی اپنی کلاسک روایت کی رنگ میں گامزن کیا۔
مقررین نے کہا کہ جب بانک کریمہ پر مقدمہ کیا گیا تو انہیں کہیں جاکر چھپ جانے کا کہا گیا لیکن انہوں نے مادروطن سے دغا کرنے سے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ کولواہ سے لیکر کیچ تک اور کوئٹہ سے لیکر کراچی تک جدوجہد میں اس کے نقش کف پا موجود ہیں، بذدل دشمن نے اس سے خوفزدہ ہوکر جلاوطنی میں شہید کردیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہی مزاحمت کی علامت چوک ہے جس پر آج ہم بانک کی جدوجہد کو خراج پیش کرنے اور اسے یاد کرنے اور دنیا کو بتانے اور اس کے قتل پر اپنا غم و غصہ بتانے کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں، بلوچ حقوق کے لئے ایک دفعہ پھر اکھٹے ہوئے ہیں، فلسطین میں لیلیٰ خالد اور ہمارے لئے بانک کریمہ بلوچ مثال بن چکی ہیں، ہم ریاستی غلام ہیں اور غلاموں کو سمجھنا ہوگا کہ حاکم ہمیں حقوق نہیں دیں ہمیں حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی اور انہیں چھیننا ہوگا، یہ عقیدت اور والہانہ محبت ہے کہ آج بلوچ اپنی بچیوں کے نام بانک کریمہ بلوچ کے نام پر رکھ رہی ہیں۔