گوادر کے مقامی عدالت نے بزرگ بلوچ سیاستدان اور بلوچ متحدہ محاذ اورپاکستان ورکرزپارٹی کے صدر میر یوسف مستی خان کو گوادر میں جاری احتجاجی دھرنے میں ’پاکستانی ریاست کے خلاف اشتعال انگیز‘ تقریر سے متعلق مقدمے میں ضمانت منظور کرلی گئی جس پر انہیں رہا کردیا گیا۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 121، اے 123، اے 124، 153، 109 اور 34 کے تحت پولیس کی جانب سے ان کی گرفتاری کے صرف ایک دن بعد ہی ان کے وکیل نے ضمانت کی درخواست دائر کی۔
میر یوسف مستی خان تقریر 8 دسمبر کو گوادر میں دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔
عدالت نے وکیل صفائی کے دلائل سننے کے بعد انہیں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے پر رہا کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں انہیں گوادر جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ پولیس نے میر یوسف مستی خان کو گوادر میں جاری احتجاجی دھرنے میں ’ریاست کے خلاف اشتعال انگیز‘ تقریر کرنے پر گرفتار کرلیا تھا۔
گوادر کے مکین ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کے بینر تلے اپنے مطالبات کے حق میں گزشتہ 26 روز سے دھرنا دیے ہوئے ہیں، تحریک جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری بلوچستان مولانا ہدایت الرحمٰن نے شروع کی تھی۔
پولیس نے یوسف مستی خان کو گھرسے گرفتار کیا جہاں وہ مقیم تھے اور انہیں سیشن کورٹ کے سامنے پیش کیا، جس پر عدالت نے انہیں ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
بلوچ رہنما دھرنے کے شرکا کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے گوادر پہنچے تھے۔
دھرنے کے قائد مولانا ہدایت الرحمٰن کے خلاف بھی یوسف مستی خان کومدعو کرنے پرمقدمات درج کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے میر یوسف مستی خان کی گوادر میں گرفتاری کی مذمت کی تھی۔