انڈیا کے مقامی میڈیا کے مطابق انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب لداخ سیکٹر میں چین اپنے فوجی انفراسٹرکچر کو بڑھانے میں مصروف ہے، جس پر انڈیا نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس سے قبل بھی انڈین میڈیا میں حکومت کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی گئی تھی کہ چین مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کی فنگر چار سے?فنگر سات کے درمیان بڑے پیمانے پر اضافی میزائل، ٹینک اور راکٹ وغیرہ نصب کر رہا ہے۔
اگرچہ جین نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ اپنے علاقے میں کر رہا ہے۔ لیکن سیٹلائٹ کی تصاویر سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس علاقے میں چین کی تعمیرات میں اضافہ ہوا ہے۔
سٹیلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ چین نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی نوعیت کی نئی تعمیرات کی ہیں۔ ان تصاویر سے اس علاقے میں نئے ہتھیاروں اور بھاری مشینوں کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ چینی فوج نے جھیل میں نگرانی کے لیے گشت کرنے والی کشتیوں کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔
انڈین اخبار ‘لائیو منٹ’ کی خبر کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان حالیہ بات چیت کے دوران انڈیا نے مشرقی لداخ کے علاقے میں چینی فوج کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کی ہے لیکن بی بی سی کسی آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی بات کی تفصیل کسی جانب سے جاری کی گئی ہے۔
انڈین میڈیا میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ چین ایل اے سی پر نئی تعمیرات کر رہا ہے جس میں رہائشی عمارتیں، سڑکیں، نئی شاہراہیں وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میزائل رجمنٹ سمیت بھاری ہتھیار بھی اپنی جانب تعینات کر رکھے ہیں، جس وجہ سے انڈیا کافی پریشان ہے۔
میڈیا نمائندوں کا کہنا ہے کہ ملٹری انفراسٹرکچر میں اضافہ خاص طور پر اہم ہے، جس میں شاہراہوں کو وسیع کیا جانا اور نئی فضائی پٹی بنانا شامل ہے۔ یہ فضائی پٹی مرکزی ایئربیس کاشغر، گار گنسا اور ہوتن کے علاوہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک شاہراہ بھی بنائی جا رہی ہے جس سے ایل اے سی پر چینی فوج کے رابطے میں مزید بہتری آئے گی۔ جبکہ چین اپنی فضائیہ اور بری فوج کے لیے ایسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر بھی توجہ دے رہا ہے جو اسے انتہائی دشوار گزار علاقوں میں امریکی اور دیگر سیٹلائٹس سے محفوظ رکھ سکے گا۔
اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر، تبت اور اس خطے کو سمجھنے والے لوگوں کو بھرتی کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جنھیں ہان سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعینات کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق دراصل، ناقابل رسائی علاقے کی وجہ سے مین لینڈ چائنا کے لوگوں کے لیے یہاں رہنا بہت مشکل ہے، اس لیے چین مقامی لوگوں کو یہاں رکھنا چاہتا ہے۔
بنارس ہندو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور انڈیا اور چین کے رشتے پر کئی کتابوں کے مصنف کیشو مشرا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیں تعمیرات کرتا رہا ہے اور یہ معاملہ کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2017 کے بعد جب سے چینی صدر کے اختیارات میں وسیع اضافے کے بعد انڈیا اور چین کی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
پروفیسر کیشو مشرا نے کہا کہ انڈیا کہ لیے یہ تشویش کی بات ہے، اگرچہ چین اپنا اعتدال پسندانہ چہرا دکھانا چاہتا ہے لیکن سرحد کے پاس اس کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔
انھوں نے کہا: ’چونکہ انڈیا اور چین کے درمیان سرحد کی واضح حد بندی نہیں ہے، اس لیے چین اپنے حساب سے نئے گاؤں بسا دیتا ہے جن میں عام شہریوں کے بجائے جنگجوؤں کو آباد کرتا ہے اور یہ انڈیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔‘
جبکہ دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گذشتے موسم سرما سے موازنہ کیا جائے تو اس بار چین کا سڑک کا رابطہ بہت بہتر ہے اور وہ یہاں کی آب و ہوا کا زیادہ عادی ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو ہی چین کے صدر شی جن پنگ نے مسلح افواج کو مضبوط بنانے کے لیے ’ملٹری ٹیلنٹ کلٹیویشن‘ یعنی فوجی صلاحیت کی آبیاری کی بات کہی تھی۔
پیپلز ڈیلی کے مطابق انھوں نے کہا کہ چینی مسلح افواج کے اعلیٰ معیار کی ترقی، فوجی مقابلے میں فتح حاصل کرنے اور مستقبل کی جنگوں میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے ٹیلنٹ کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
سمتبر کے مہینے میں فوج کی تجدید کاری اور اسے مضبوط بنانے کے لیے ایک کانفرنس ہوئی تھی اور اس میں ٹینلٹ کی تلاش اور آبیاری کی بات کی گئی تھی تاکہ سنہ 2027 میں پیپلز لبریشن آرمی کے صد سالہ جشن کے موقعے پر اسے مزید تقویت سے ہمکنار کیا جائے۔
کیشو مشرا کا کہنا ہے کہ ’جب سے شی جن پنگ کو چین میں لا محدود اختیارات حاصل ہوئے ہیں اس کے بعد سے انڈیا کے خلاف چین کے برتاؤ میں تبدیلی آئی ہے۔‘
خیال رہے کہ شی جن پنگ چین کے صدر ہونے کے ساتھ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی سی پی سی کی سینٹرل کمیٹی کے جنرل سیکریٹری اور سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) کے چیئرمین بھی ہیں۔
دوسری جانب چند روز قبل انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے چین کو انڈیا کے لیے سب سے بڑا سکیورٹی خطرہ قرار دیا تھا جسے چینی وزارت دفاع کے ترجمان وو کیان نے ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا تھا۔
چینی حکومت کے ترجمان اخبار پیپلز ڈیلی کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’چین کو خطرہ‘ قرار دینا دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ’سٹریٹیجک گائیڈینس‘ کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ دونوں ممالک کہتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔
وو کیان نے کہا کہ ’جغرافیائی اور سیاسی تصادم کو ہوا دینا غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک ہے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ چینی فوج اپنی قومی سالمیت اور تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سرحد پر امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کی بھی پابند ہے۔
چین کے اس مؤقف کے باوجود گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران چین اور انڈیا کے درمیان مختلف مقامات پر کشیدگی نظر آئی ہے۔
خیال رہے کہ تقریباً ڈیڑھ سال قبل گلوان گھاٹی میں انڈین اور چینی فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں انڈیا کے تقریباً 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ چین نے اپنی جانب کے نقصان کی کوئی واضح تفصیل نہیں بتائی تھی۔
کیشو مشرا کا کہنا ہے کہ ’چین نے بھوٹان اور انڈیا کے علاوہ تمام پڑوسیوں سے اپنی سرحدی تنازع کو ختم کر دیا ہے۔ گذشتہ ماہ اس نے بھوٹان کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا ہے۔ ایسی صورت میں صرف انڈیا کے ساتھ ہی اس کا سرحدی تنازع بچ جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ خطے میں اگر کوئی طاقت چین کو مقابلہ دے سکتی ہے تو وہ انڈیا ہے۔
اس سے قبل رواں سال فروری میں بھی ایسی ہی بات سامنے آئی تھی جب انڈیا کے جنرل وی کے سنگھ نے انڈیا کی جانب سے چین کی حدود میں داخل ہونے کی بات کہی تھی، جس پر چین نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
اس وقت بھی انڈین میڈیا نے حکومت کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ چین مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کی فنگر چار سے?فنگر سات کے درمیان بڑے پیمانے پر اضافی میزائل، ٹینک اور راکٹ وغیرہ نصب کر رہا ہے۔
یہ خطہ پہلے انڈیا کے کنٹرول میں تھا مگر گذشتہ سال جون میں ایک خونریز ٹکراؤ کے بعد چین نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ اُس وقت سے یہاں ہزاروں چینی فوجی تعینات ہیں۔ انڈیا نے بھی اپنے موجودہ کنٹرول والے علاقے میں ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔