(پسنی کا آزادی پسند شاعر اورگوریلا)
ع
بگندئے روچے رسینیت زندہ
کہ مرگ ءِ پُشت ءَ تچان اِنت عاقل
یہ شعر اس بات کی عکاس ہے کہ عاقل جان نے فیصلہ کیا تھا کہ میں خود کو مقصد کے لیے قربان کرکے رہوں گا۔
یعنی وہ کھٹن راہوں پہ چلنے کا فیصلہ کرچکا تھا، آگ اور لہو کے طوفان میں چلنے کا فیصلہ، یہ راہ ممکن ہے کہ عام انسانوں کے لیے ظلمت کدہ ثابت ہو، پر ذہنی طور پر مضبوط انسانوں کے لیے نرم و گداز مخملی بستروں سے زیادہ پرسکون ہوتا ہے۔ اس عمل سے اس سوچ کو تقویت ملتی ہے کہ جہد آزادی یا کسی یزیدی خصلت نظام کے خلاف خونی انقلاب انسانی کردار کو پرکھنے کے سب اہم عنصرہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آگ کے دریا اور لہو کے سمندر میں سے تیرکے گزرنا پڑتا ہے۔ آگ اور لہو کا احساس ہی کافی ہے کہ ایسے حالات میں وہ انسان جوثابت قدم رہتا ہو، جونمود و نمائش سے مبرا ہو، دل میں خواہشِ ریز تک نہ ہو۔۔۔ وہ کس مقام پہ ہوگا۔ یقیناً ایسے الفاظ ناپید ہوں گے جو کسی ایسے کردار کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرسکیں۔ یہی کہنا ہی صحیح و سالم ہوگا کہ وہ عا م انسانوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں، منفردہوتے ہیں۔ ان کی یہی انفرادیت دیکھ کر بسااوقات انہیں جمالیات کے آئینے اتارنے کو قلم از خود گردشاں رہتا ہے۔
جہد آزادی کا ایک اہم ساتھی، بلوچی زبان کا شاعر عاقل عذاب اپنی خولی آنکھوں، قوم دوست رویے، نا تھکنے والے گام، انتہائی کھٹن حالات میں دوستوں کے لیے حوصلے کا مینار، کارروان کے ہراول میں ہوکے دوستوں کے لیے مورچہ بننا، اور جب تھکاماندہ لشکر کسی پناہ گاہ پہ دم سادھ لینے رکھتا تو نہ صرف جسمانی محنت سے ہمسفروں کا حوصلہ بلند رکھتا بلکہ بسا اوقات اپنی شاعرانہ طبع سے دلوں کو موہ لینے والا کرداربھی ادا کرتا، تاکہ دوستوں کی تھکاوٹ ان پہ حاوی نہ ہوجائے۔ عاقل کو جب بھی، جہاں بھی دیکھا اسے اسی حالت، اسی صورت میں پایا، چہرے پہ مسکراہٹ اور جسم میں حرکتِ حُر، یعنی وہ آزادی اور انقلاب کے روح سے واقف ہوچکا تھا کہ اس راہ میں کردار ایسا ہونا چاہیے جو داعی اجل میں حاضری کے بعد بھی عملی طور پر زندہ رہے۔
صوالی اوراماں رشیدہ کے اس لال کا جنم 22 اپریل 1993ء کو آبائی علاقہ پسنی میں ہوا۔ قابض(پاکستان) کے کرم فرمائی سے غربت و افلاس بلوچستان کے ہر کوچہ و گدان میں اژدہ کی طرح لوگوں کی زندگی نگل رہا ہے، ان حالات میں جب گھر کا چولہا ہی قسمت سے جلتا ہو وہاں بچوں کی تعلیم پہ کون متوجہ ہوسکتا ہے۔ انہی حالات کا شکار عاقل جان کا خاندان بھی تھا جس کی وجہ سے ریاستی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ پر اگر کوئی عاقل سے نہ ملا ہویا اس کے بچپن سے واقف نہ ہو تو وہ اس کی ادبی کاوشیں دیکھ کر یہ یقین ہی نہیں کرے گا کہ ادبی حوالے سے اس عاقل و بالغ انسان نے اداروں (سکول و کالج) سے تعلیم حاصل نہ کیا ہو۔ پر آبادکاروں اور ان کے استحصالی نظام کی ستم ظریفی کہ ہمارا ”بسمل“ (آزادی پسند ہندوستانی شاعر ”رام پرساد“) پسنی کا عظیم فرزند ان کے عطا کردہ اداروں تک پہنچنے میں نامراد رہا۔ پر وہ اپنی خداداد صلاحیتیوں کی بدولت ایک مختصر عرصے میں لکھنے اور پڑھنے کے فن سے نا صرف آشنا ہوا بلکہ کتاب اور قلم کا حق بھی ادا کرتا رہا جس کی شہادت اس کی شاعری کی صورت میں محفوظ ہے۔
پسنی جو مردِ حُروں کی جنم بھومی بھی ہے، استحصالی نظام کے باوجود ادبی میدان میں بھی اس کے بچے اپنی مثال آپ اور فٹبال کے کھلاڑی بھی بے نظیر صفات کے مالک۔ عاقل کے بارے نہ صرف میں بلکہ جو بھی اس سے واقف ہے وہ یہ کہنے میں پس و پیش سے کام نہیں لے گا کہ عاقل پسنی کا عاقل اس دھرتی کا عاقل”خدا کا داد “ تھا۔ اب ذرا اوپر بیان کیے گئے صفات پہ نظر ڈالیے، اس میں بالاتمام خوبیاں پائی جاتی تھی، اگر میدان کارزار میں ہوتا تو دشمن پہ قہر بن کے نازل ہوتا، اگر شاعری پہ اترآتا تو روانی دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے اور اگر قصہ کھیل کود کا ہو تو وہ فٹبال کا انمول کھلاڑی بھی تھا۔۔۔منفرد تھا ہمار اعاقل، سب سے منفرد۔۔۔ پسنی کا پورا حسن، پسنی کا ہر کردار قدرت نے اس میں سمو دیا تھا۔
پسنی شاعروں کی سرزمین، پسنی حمل(ھمل) جیسے سربازوں کی سرزمین، لشکر سکندری کا غرور خاک میں ملانے والاپسنی، پسنی نورخان کی آماجگاہ، پسنی جس کی ہوائیں دل لبانے والی، پسنی جس کے ساحل پہ بیٹھ کے افسردہ دل بھی رقصاں ہوں، پسنی جس کی خوبصورتی کا بیان زبان سے ممکن نہیں، نازاں ہونے پہ قلم کے الفاظ بھی ماند پڑجائیں، جب رقصاں ہو بشر، تو ساحل کی شرارت اور ریت کی چمک میں اسے اپنے جمال پہ احساس کم مائیگی ہو۔۔۔ ہاں پسنی عاقل عذاب(ریاض) کا پسنی۔ ریاض جس کی ریاضت میں تیری خوبصورتی پوشیدہ تھی، عاقل جس کی آنکھوں میں تیرے بحر کی موجیں تھیں، عاقل جس میں حمل کی روح سرایت کرگئی تھی، عاقل، ہی تو تھا جس کی ذات میں پسنی کا پورا جمال رقصاں رہتا تھا۔
پسنی کا یہ حُسن دھرتی کا حق ادا کرتا ہوا کولواہ میں ایک فوجی آپریشن میں دشمن سے گھنٹوں دوبدو لڑتا ہوا اپنے دیگر تین ساتھیوں سمیت حمل (ھمل) کے دیدار پہ روانہ ہوا۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی جب وہ زخموں سے چور ہوگا اس کے چہرے پہ وطن پہ جان نچاور کرنے والوں کی مسکان اور لبوں پہ دھرتی کے نغمے ہوں گے۔
ع
بیا وطن کولیگ بیئں کُربان بیئں
پہ بلوچستان ءَ پَھر ء ُ شان بیئں
اپنی جیت پہ خود سے کیے گئے وعدے پہ وہ یہ بھی گنگنا رہا ہوگا کہ
ع
من ءَ زمانگ شموشیت بلکیں
ترا پہ نامے دیان اِنت عاقل