فیس بک کا نام تبدیل کرکے”میٹا“رکھ دیا گیا

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

فیس بک نے اپنی کمپنی کا نام تبدیل کرکے”میٹا“رکھ دیا ہے۔

سوشل نیٹ ورک کے بانی مارک زکربرگ نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فیس بک کی پیرنٹ کمپنی کا نیا نام ہے۔

نام میں تبدیلی یا ری برانڈنگ کا مقصد سوشل میڈیا نیٹ ورک کی جانب سے میٹا ورس کی اہمیت کو ظاہر کرنا بھی ہے جسے مارک زکربرگ نے انٹرنیٹ کا مستقبل قرار دیا ہے۔

اس تبدیلی کے بعد اب فیس بک سائٹ یا ایپ اس کمپنی کا مرکز نہیں رہی بلکہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی طرح ایک ذیلی شاخ بن گئی ہے مگر سوشل نیٹ ورک کا نام بدستور فیس بک ہی رہے گا۔

مارک زکربرگ میٹا کے سی ای او اور چیئرمین ہوں گے یعنی مکمل کنٹرول ان کے پاس ہی ہوگا۔

بنیادی طور پر یہ نیا نام کمپنی کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کا اظہار کرتا ہے اور مارک زکربرگ کی جانب سے کچھ دن قبل 2021 میں ہی میٹاورس کے لیے 10 ارب ڈالرز خرچ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

کمپنی کے ورچوئل اور اگیومینٹڈ رئیلٹی کانفرنس کنکٹ کے دوران مارک زکربرگ نے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے نئے نام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں ایک سوشل میڈیا کمپنی کے طور پر دیکھا جاتا ہے مگر ہم ایک ایسی کمپنی ہے جو لوگوں کو جوڑنے والی ٹیکنالوجی تیار کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکٹھے مل کر لوگوں کو ٹیکنالوجی کے مرکز میں لاسکتے ہیں اور اکٹھے مل کر ہم زیادہ بڑی معیشت کو تشکیل دے سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارا برانڈ ایک پراڈکٹ (فیس بک) سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، مگر وقت کے ساتھ توقع ہے کہ ہمیں ایک میٹا ورس کمپنی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

مارک زکربرگ نے کہا کہ ‘میں نے نئے باب کے آغاز کے موقع پر ہماری شناخت کے بارے میں بہت سوچا، فیس بک دنیا کی تاریخ کے چند سب سے زیادہ استعمال ہونے والے پراڈکٹس میں سے ایک ہے، یہ ایک آئیکونک سوشل میڈیا برانڈ ہے، مگر اس سے ان سب چیزوں کی عکاسی نہٰں ہوتی جو ہم کرتے ہیں ‘۔

مارک زکربرگ نے بتایا کہ یہ نیا نام یونانی لفظ میٹا سے لیا گیا جس کا مطلب ‘دوسری طرف یا اس پار’ ہے ‘میرے لیے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں تعمیر کا سلسلہ جاری رکھنا ہے’۔

مارک زکربرگ @meta ٹوئٹر اکاؤنٹ اور meta.com کے مالک بھی ہیں جو فیس بک کے ویلکم پیج پر ری ڈائریکٹ کرنا والا یو آر ایل ہے۔

نام میں یہ تبدیلی اس وقت کی گئی ہے جب حالیہ دنوں میں فیس بک کے حوالے سے متعدد انکشافات سے اس کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے اور بظاہر اس کا مقصد ساکھ کی ممکنہ بحالی بھی ہے۔

حال ہی میں دی ورج کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ری برانڈنگ، فیس بک کی سوشل میڈیا ایپ کو ایک پیرنٹ کمپنی کے ماتحت کئی مصنوعات میں سے ایک کے طور پر پیش کرے گی جو انسٹاگرام، واٹس ایپ، اوکولس اور دیگر کی نگرانی کرے گی۔

خیال رہے کہ سلیکون ویلی میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ کمپنیاں اپنے نام تبدیل کریں کیونکہ وہ اپنی خدمات کو توسیع دینے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

گوگل نے 2015 میں الفابیٹ انکارپوریشن کو ایک ہولڈنگ کمپنی کے طور پر قائم کیا تھا تاکہ وہ اپنی سرچ اور اشتہاری کاروبار سے آگے بڑھے، اپنے خودمختار گاڑیوں کے یونٹ اور ہیلتھ ٹیکنالوجی سے لے کر دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ خدمات کی فراہمی تک مختلف دیگر منصوبوں کی نگرانی کرے۔

رپورٹ کے مطابق سائٹ کی ری برانڈنگ کا اقدام نام نہاد میٹاورس، ایک آن لائن دنیا کی تعمیر پر فیس بک کی توجہ کی عکاسی کرے گا جہاں لوگ ورچوئل ماحول میں نقل و حرکت اور بات چیت کے لیے مختلف آلات استعمال کر سکتے ہیں۔

اب مارک زکربرگ نے ری برانڈنگ کے حوالے سے بتایا کہ کمپنی کا کاربوریٹ اسٹرکچر تبدیل نہیں ہوگا مگر مالیاتی نتائج کی رپورٹس کا طریقہ کار ضرور بدل جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ 2021 کی چوتھی سہ ماہی سے ہم 2 شعبوں فیملی آف ایپس اور رئیلٹی لیبز کی رپورٹ مرتب کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کے اعلان سے شیئر ڈیٹا کے استعمال کے طریقہ کار پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

اس موقع پر مارک زکربرگ نے میٹا ورس سے متعلق متعدد نئے سوشل، گیمنگ اور ورک پلیس کانسیپٹس کی جھلکیاں بھی جاری کیں۔

کمپنی کی جانب سے میٹا ورس کی عکاسی کرنے والی کانسیپٹ ویڈیوز کو بھی دکھایا گیا، جیسے اپنی ہولوگرافک تصویر دوست کو بھیجنا، ورچوئل میٹنگ اور دیگر۔

میٹاورس ابھی صرف خیال ہے اور اس کا خیال سائنس فکشن کتابوں اور فلموں سے لیا گیا ہے اور اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے دنیا بھر کی بڑی انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز کمپنیاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی۔

ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہے کہ ’میٹاورس‘ کیسا نظام ہوگا اور وہ کس طرح انسانی زندگی کو آسان بنائے گا یا پھر دنیا پر کس طرح کے اثرات مرتب کرے گا۔

تاہم فیس بک اور مائیکرو سافٹ سمیت تمام بڑی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ’میٹاورس‘ ورچوئل ریلٹی (وی آر) اور آگمنٹڈ ریئلٹی (اے آر) سمیت تھری ڈی ٹیکنالوجی کا مشترکہ اور بہتر ورژن ہوگا۔

یعنی کہ ’میٹاورس‘ کو استعمال کرنے کے لیے موبائل فون یا کمپیوٹر کے بجائے آنکھوں پر لگائے جانے والے وی آر ہیڈسیٹ کا سہارا لینا پڑے گا لیکن ممکن ہے کہ مذکورہ ٹیکنالوجی کمپیوٹر اور موبائل کو بھی تبدیل کردے۔

زیادہ تر ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر ’میٹاورس‘ کا نظام حالیہ ٹیکنالوجی میں اتنی ہی تبدیلی لائے گا جس طرح 1980 میں بنائے گئے موبائل فونز کو آج کل کے جدید ترین اسمارٹ فونز نے تبدیل کردیا ہے۔

’میٹاورس‘ کو انٹرنیٹ کا نیا نظام کہا جا رہا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ مذکورہ نیا سسٹم خود ہی اپنے انٹرنیٹ سے لیس ہوگا یا حالیہ انٹرنیٹ پر چلے گا؟

زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ چوں کہ تاحال ’میٹاورس‘ ایک خیال ہے، اس لیے اس کی تیاری میں کم از کم 15 سال لگیں گے اور اس کی ابتدائی شکل اگلی ایک دہائی میں سامنے آئے گی۔

Share This Article
Leave a Comment