لاہور میں ٹی ایل پی کارکنان اور پولیس میں جھڑپیں،3 اہلکار ہلاک

0
137

لاہور میں کالعدم تنظیم تحریکِ لبیک پاکستان کے ’لانگ مارچ‘ کے شرکا نے سنیچر کی صبح دوبارہ اسلام آباد کی جانب سفر شروع کیا ہے تاہم پولیس نے ایک بار پھر آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے ان کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کی ہے۔

اس وقت مارچ کے شرکا لاہور میں مینارِ پاکستان کے قریبی علاقے میں موجود ہیں اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

آزادی چوک میں رات قیام کے بعد سنیچر کو علی الصبح جب کارکنوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس کی جانب سے ان پر آنسو گیس پھینکی گئی۔ انتظامیہ کی جانب سے آزادی چوک کے آس پاس کے علاقے کو کنٹینر لگا کر بند بھی کیا گیا ہے۔

مظاہرین اور پولیس کے درمیان جمعے کی شام سے شروع ہونے والی جھڑپوں میں اب تک کم از کم تین پولیس اہلکار ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ تحریکِ لبیک کے ترجمان کی جانب سے بھی درجنوں کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

اس لانگ مارچ کے شرکا ملک سے فرانسیسی سفیر کی بیدخلی کے معاہدے پر عملدرآمد اور تنظیم کے سربراہ سعد حسین رضوی کی رہائی کے مطالبات کر رہے ہیں۔

تنظیم کی مرکزی شوریٰ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اگر اب یہ مارچ روکنے کی کوشش کی گئی تو ان کے پاس ’پلان بی بھی موجود ہے۔‘

تحریکِ لبیک کے کارکنوں نے اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن کے خاتمے کے بعد جمعے کو ملتان روڈ پر واقع اپنے مرکز سے ریلی کی صورت میں جب آگے بڑھنا شروع کیا تو ایم اے او کالج کے قریب پولیس نے انھیں روکنے کے لیے آنسو گیس کے گولے چلائے جبکہ اس دوران متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

اس دوران ایم اے او کالج سے داتار دربار تک کا علاقہ جھڑپوں کا مرکز بنا رہا اور لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان جھڑپوں میں پولیس کے تین اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اہلکار ٹی ایل پی کے کارکنوں کے پتھراؤ کا نشانہ بنے۔ ترجمان آپریشنز ونگ کے مطابق پتھراؤ سے متعدد اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جنھیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

تاہم تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ اس کے کارکنوں پر ان ہلاکتوں کا الزام بے بنیاد ہے۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پٹرول بم پھینکنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔

ترجمان کے مطابق پولیس تشدد کے باوجود تحمل مزاجی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

ادھر پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تحریکِ لبیک کے لانگ مارچ میں شامل مظاہرین کے مبینہ تشدد اور گاڑیوں کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے ہمدردی و اظہار تعزیت کرتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔

ایک بیان میں عثمان بزدار نے کہا ہے کہ اس افسوسناک واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے اور قانون کی عملدراری کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔

اس سے قبل پنجاب کے وزیراعلیٰ کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے وزیر قانون راجہ بشارت اور چوہدری ظہیرالدین مذاکرات کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و آشتی کے لیے سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم پھر ذرائع ابلاغ نے تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پنجاب حکومت اور تنظیم کے درمیان لاہور میں مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

جھڑپوں کے بعد تحریکِ لبیک کی مرکزی شوریٰ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب بات چیت صرف اسی صورت میں ہو گی کہ جب لاہور میں قید تنظیم کے قائد سعد حسین رضوی کو رہا کر کے جلوس میں نہیں لایا جاتا اور اب وہی مذاکرات میں تنظیم کی نمائندگی کریں گے۔

خیال رہے کہ تحریک لبیک کی قیادت حکومتی مذاکراتی ٹیم سے فرانسیسی سفیر کے معاملے پر کیے گئے معاہدے پر عمل کرنے پر مصِر ہے اور اس تنظیم کا اپریل میں ہونے والے احتجاجی مظاہرہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد ختم کیا گیا تھا۔۔

مظاہرین کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پولیس حکام کے مطابق حکومت کی ہدایات کا انتظار کیا جا رہا ہے اور احکامات کی صورت میں ریلی کے نکلنے کے راستے پر کنٹینر لگا کر اسے روکا جائے گا۔

ٹی ایل پی کے مارچ کو روکنے کے لیے لاہور اور اسلام آباد میں پولیس اور انتظامیہ نے متعدد شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔ حکام کی جانب سے موٹروے ایم ٹو پر لاہور کے قریب بابو صابو انٹرچینج کو بند رکھا گیا ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی راستوں اور مرکزی شاہراہوں کو جزوی یا مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کنٹینرز لگائے گئے ہیں۔

راولپنڈی میں اس وقت مری روڈ اور فیض آباد ٹریفک کے لیے بند ہیں جبکہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ ان کے مطابق سٹیڈیم روڈ کو بھی دونوں جانب ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

جمعہ کی صبح تحریکِ لبیک پاکستان کے مزید چالیس کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں 20 کارکنان کو اٹک، 10 کو ٹیکسلا اور 10 کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا ہے۔

جمعہ کی صبح سے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقعہ فیض آباد چوک اور راولپنڈی سٹیڈیم روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کی مرکزی شاہراہ مری روڈ بھی متعدد جگہوں پر ٹریفک کے لیے بند ہے، جس سے دونوں شہروں کے رہائشیوں کو آمد و رفت میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں دھرنے پر بیٹھے کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں کا مطالبہ تھا کہ وفاقی حکومت ان کی جماعت کے ساتھ چند ماہ پہلے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرے جس کے تحت اسے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے کارروائی کرنا تھی۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے گذشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کالعدم تحریک لبیک کے مطالبے پر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا گیا تو پاکستان کے یورپی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here