طالبان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، عمران خان

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 76ویں اجلاس سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کی فوری مدد کی جائے تاکہ وہ غربت کی دلدل سے باہر نکل سکیں۔ بقول ان کے، ”وقت ضائع کیے بغیر مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے، ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کی ہر طرح سے مدد کی جائے”۔

انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ یہ وقت افغان عوام کو سہارا دینے کا ہے،جنھوں نے کئی دہائیوں تک مصیبتیں اور تکالیف جھیلی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ طالبان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، انھیں تنہا نہ چھوڑا جائے، تاکہ افغانستان کی حکومت بہتر انداز سے چل سکے جس سے ہمسایہ ملکوں اور بین الاقوامی برادری کو لاحق تحفظات دور ہوں گے اور ملک میں امن و امان اور ترقی آ سکے۔

عمران خان نے کہا کہ 20 سال تک امریکہ اور امریکی اتحاد کی جانب سے کی جانے والی محنت کو کسی طور پر ضائع اور رائیگان نہیں جانا چاہیے۔

بقول ان کے، دوحہ بات چیت اور معاہدے کے نتیجے میں جو اہداف طالبان کو دیے گئے ان کی پاسداری کے لیے ان کی مدد کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انسانی حقوق کی حرمت کو یقینی بنانے،خواتین اور اقلیتوں کو حقوق اور تحفظ دینے، اور اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ لیا گیا ہے کہ کسی دہشت گرد گروہ کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان کے الفاظ میں ”جو ثمر ان دو دہائیوں میں حاصل کیا گیا ہے، اسے ضائع نہیں ہونے دیا جانا چاہیے”۔ اس کے لیے طالبان کو مالی وسائل فراہم کیے جائیں اور بین الاقوامی ادارے بڑھ چڑھ کر افغان عوام کی امداد کریں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ طالبان نے آتے ہی عام معافی کا اعلان کیا ہے اور ان کی قیادت اور عہدے داروں نے اپنے بیانات میں یقین دلایا ہے کہ جامع حکومت تشکیل دیں گے، انسانی حقوق کی حرمت کو یقینی بنائیں گے اور افغان سرزمین کسی طور پرکسی گروہ کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کے بقول، ”ہمیں ان ہر بھروسہ کرنا چاہیے اور ان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ حالات درست ہوں، امن بحال ہو اور افغان عوام کی مشکلات دور ہوں، جو بات ہمسایہ ملکوں کے بھی مفاد میں ہے”۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کی کسی ناکامی یا امنڈتے ہوئے کسی خلفشار کا براہ راست اثر اور نتیجہ ہمسائیہ ملک پاکستان پر پڑتا ہے۔ گزشتہ 20 سال کا ذکر کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ افغانستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے افغان مہاجرین کا پاکستان آنے کا سلسلہ جاری رہا، قبائلی علاقے اور پھر پاکستان بھر میں دہشت گردی نمودار ہوئی، پاکستان طالبان تحریک کا وجود سامنے آیا، قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں کے ساتھ جھڑپیں ہوتی رہیں۔ افغانستان کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں پاکستان میں واقع ہوئیں، ہمارے ہزاروں اہل کار ہلاک ہوئے، بم دھماکے ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ اب جب کہ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہو چکا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وعدوں کی پاسداری کی جائے جو امریکہ اور طالبان کے مابین ہوئے، اور جس کی گواہ بین الاقوامی برادری، اور پاکستان سمیت دیگر ملک ہیں۔

ان کے الفاظ میں،11 ستمبر 2001ء کے بعد جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بنا، دو دہائیوں کے دوران 80،000 پاکستانی ہلاک ہوئے، معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا،جب کہ تین کروڑ 50 لاکھ افراد داخلی طور پر متاثر ہوئے۔

کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے، پاکستانی وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ نے ماضی میں کشمیریوں کے ساتھ استصواب رائے کا وعدہ کر رکھا ہے، جسے پورا کیا جائے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ کشمیریوں کے ساتھ مظالم ہو رہے ہیں، اور ان سے بنیادی انسانی حقوق سلب کیے گئے ہیں؛ اور یہ کہ بھارت وہاں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے بھارت کے زیرقبضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف حکومتی اقدامات اور ہندو مذہبی گروپس کی مبینہ مخالفانہ کارروائیوں کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

واضح رہے بھارت کشمیر کو اپنا لازمی حصہ قرار دیتے ہوئے، مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کو پراپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات سے بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ہوتی ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے اور بھارتی آئین کے مطابق تمام شہری مساوی حقوق رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم نے عالمی فورم کی توجہ مبینہ ‘اسلاموفوبیا’ کی جانب مبذول کرائی، جس کے لیے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نائیں الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے منسلک کیا گیا، جس کی وجہ سے بعض انتہاپسند گروپس کی جانب سے مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم سرزد ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی گلوبل کاؤنٹر ٹیررازم سٹریٹیجی میں ان ابھرتے ہوئے خطرات کو تسلیم کیا گیا ہے۔

عمران خان نے اپنی تقریر کا آغاز اقوام عالم کو درپیش بڑے چیلنجز کے ذکر سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو کوویڈ-19، اقتصادی بحران اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑے بحرانوں کا ایک ساتھ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی ‘سمارٹ لاک ڈاؤن’ کی حکمت عملی سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ محدود کرنے میں کامیاب رہا ہے، جب کہ ‘احساس پروگرام ‘سے ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کو سماجی تحٖفظ حاصل ہو رہا ہے۔

گلوبل وارمنگ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ پاکستان دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہے جنہیں آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اس صورت حال کے مقابلے کے 10 ارب درخت لگانے کے پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔

وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کی کووڈ 19 کی وبا کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مناسب فنڈز مہیا کیے جانے چاہئیں۔

Share This Article
Leave a Comment