افغانستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کا کوئی فعال مرکز نہیں، طالبان

0
352

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے سیکرٹری اطلاعات بلال کریمی نے خبر رساں ادارے آن لائن کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہاہے کہ پاک افغان سرحدپرخاردار تاروں کی موجودگی کے باوجود دہشتگردی سے متعلق حکومت بلوچستان سے پوچھاجائے،زبانی باتوں کو ثبوت نہیں قراردیاجاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ یا پاکستان میں افغان طالبان ہیں اورنہ ہی کوئی فعال مرکز،البتہ ایسے بہت سے لوگ جو امارت اسلامی کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور حمایت کررہے ہیں۔

بلال کریمی نے کہا کہ بلوچ عسکریت پسندوں کی افغانستان میں کوئی فعال مرکز نہیں،خطے بالخصوص ہمسایہ ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ اسلامی امارت افغانستان سے کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی،ہمسایہ ممالک کے ساتھ سیاسی،اقتصادی اور تجارتی سطح پر خوشگوار تعلقات کے خواہا ں ہیں،ایک دوسرے کو نقصان دینے جیسے ماضی کے تجربوں نے ہمیشہ نقصان دیاہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں دہشتگردی سے متعلق حکومت بلوچستان سے پوچھاجاناچاہیے سرحد (پل)پر لوگ کس تکلیف سے گزرتے ہیں سرحد(پل)پر فینسنگ(خاردار تار)ہونے کے باوجود یہ کیسے ممکن ہے اور کیا منطق ہوسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ زبانی باتوں پر یقین نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی زبانی باتوں کو کوئی ثبوت قرار دے سکتاہے انہوں نے کہاکہ ہمارا ہیواد افغانستان خود مشکلات سے دوچار تھا کل تک معاملات خراب تھے اب تک آخری پوائنٹ پر بات نہیں بن سکی ہے ہم خطے کے ممالک کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ ہماری سرزمین سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

اور ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک سے امید ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مثبت روابط رکھیں یہ اسلامی امارت افغانستان کی پالیسی اور واضح موقف ہیں،انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل نو کیلئے کام جاری ہے حکومت کی تشکیل کے بعد پالیسی مرتب کی جائے گی اور اس قانون کے تحت لوگ روزگار ودیگر حوالے سے استفادہ حاصل کرسکیں گے،ناراض بلوچوں کی افغانستان میں موجودگی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ افغانستان میں ان کی کوئی ایسا مرکز نہیں کہ وہ فعال ہوں البتہ جن کو تشویش ہے تو ہم اطمینان دلاتے ہیں۔

کہ ہماری طرف سے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔انہوں نے کہاکہ اسلامی امارت کا کسی کے ساتھ کوئی ذاتی تضاد نہیں قانونی دستاویزات پر ہر کوئی آمدرفت کرسکتاہے ہوائی اڈوں پرمشکلات کی وجہ سے فضائی آپریشن غیر فعال ہے جس کی وجہ سے لوگوں کومشکلات درپیش ہیں تاہم ان مشکلات کے حل سے بہت سے مسائل میں کمی واقع ہوگی۔قانونی دستاویزات کے ذریعے کوئی بھی شخص آزاد سفر کرسکتاہے امارت اسلامی کے رہنماؤں کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق اس تاثر کو مستردکرتے ہوئے بلال کریمی نے کہاکہ طالبان آمرا اپنے وطن میں موجود ہیں ہمارے کسی ملک میں کوئی مراکز نہیں ہے اس وقت پاکستان میں 5ملین افغان مہاجرین ہیں اور ایسے بہت سے لوگ ہیں۔

جن کی اسلامی امارت سے ہمدردی ہے اور طالبان کی حمایت کررہے ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ ایسے انتظامی مراکز نہیں ہیں جو فعالیت رکھتے ہیں مذاکرات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مذاکرات جاری ہیں بہت جلد حکومت کی تشکیل نو ہوگی اور ایک مرکزی سسٹم اور فعال نظام بنایاجائے گا تاہم عبوری حکومت سے متعلق کسی بات کی تائید نہیں کرتا افغان سابق سیاسی رہنماؤں کی واپسی اور حکومت میں شمولیت سے متعلق پوچھے گئے،

سوال کے جواب میں بلال کریمی نے کہاکہ وہ سیاسی رہنما اپنے وقت میں اقتدار میں رہ چکے ہیں اسلامی امارت کی جانب سے ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں اور انہیں کسی مشکل کاسامنا کرناپڑے گا وہ اپنے ہیواد میں رہ سکتے ہیں افغانستان میں اس وقت حالات معمول پر ہے لوگ آزادانہ نقل وحرکت کررہے ہیں،تعلیم،صحت ودیگر کے حوالے سے تمام کام جاری ہے تاہم بعض تکنیکی مسائل کو بھی جلد سے جلد حل کئے جائیں گے اور زندگی معمول کے مطابق چلے گی۔

انہوں نے کہاکہ امارت اسلامی افغانستان خطے میں تمام ممالک بالخصوص ہمسایوں کے ساتھ مثبت اور نیک تعلقات کے خواہاں ہیں نہیں چاہتے کہ ہماری طرف سے کسی کوئی نقصان ہوں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ اقتصادی،تجارتی اور سیاسی خوشگوار تعلقات قائم ہوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے جیسے تجربوں نے ہمیشہ نقصان پہنچایاہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here