بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام کوئٹہ اور اسلام آباد پریس کلب کے سامنے سانحہ بواٹہ فورٹ منرو، ڈیرہ غازی خان اور بااثر شخص اور ٹرانسپورٹ مالکان کے ہاتھوں شدید اذیت اور ٹارچر سے شہید ہونے والے بچے محراب پندرانی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا گیاجس میں کثیر تعداد میں خواتین اور نوجوانوں نے شرکت کی تھی۔ احتجاجی مظاہرے میں شریک شرکا نے رابعہ بلوچ اور محراب پندرانی پر ہونے والے مظالم کے خلاف نعرے بازی کی اور لوگوں کو ان جدوجہد میں شریک ہونے کے لیے کہا۔
مظاہرے میں لوگوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن میں محراب پندرانی اور دیگر کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا،احتجاجی مظاہرہ سے رہنماؤں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے چپے چپے میں ظلم اور جبر کا راج چل رہا ہے اس ملک میں سرمایہ دار اور بااثر شخص خود کو طاقتوار اور قانون کے پہنچ سے دور سمجھتے ہیں۔جو بنا کسی خوف و خطر ہر طرح کے جبر اور ظلم کر رہے ہیں۔
محراب پندرانی کا واقعہ ہمارے سماج میں غیرانسانی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کوئی بھی انسان جانور کے ساتھ اس طرح ظلم نہیں کرتا جس طرح اس ظالم لوگوں نے محراب پندرانی کے ساتھ کیا ہے۔ بلوچستان میں قانون وجود ہی نہیں رکھتا۔
انھوں نے کہا کہ آج جہاں ہم ایک مظاہرہ کر رہے ہیں یہاں پر سب کی تصویریں بن رہی ہیں سب کے ریکارڈ لیے جا رہے ہیں ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے مگر محراب کے واقعے کو پندرہ دن گزرنے کے باوجود اب تک مجرموں کو گرفتار نہیں کیا گیا جو اس بات کا غماز ہے کہ ملزمان کو پیٹ پیچھے مدد کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں ایسے طاقت ور لوگوں کو ہمیشہ سپورٹ حاصل رہا ہے یہ چاہے کتنے ہی بڑے کرائمز میں کیوں نہ ملوث ہوں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ حکمرانوں کو ان سے پیسہ ملتا ہے جو انھیں کسی بھی طرح نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔
رہنماؤں نے کہا فورٹ منرو میں معصوم رابعہ بلوچ کے گھر میں گھس کر جس طرح جرائم پیشہ افراد گھر کے تین افراد کو قتل کرکے باآسانی فرار ہو گئے جبکہ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ گھر کے بالکل قریب ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ایف سی چیک پوسٹ موجود ہے مگر اس تمام صورتحال میں انھوں نے کسی بھی طرح کا کوئی ردعمل نہیں دیا، بلوچ آج پاکستان کے کسی بھی کونے میں محفوظ نہیں ہیں اور تسلسل کے ساتھ ظلم اور جبر کا سامنا کر رہے ہیں اگر اس سلسلے کو روکا نہیں گیا تو آگے جاکر یہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ محراب پندرانی پر تشدد ایک غیر انسانی عمل ہے جس کے فوری بعد حکومت کو حرکت میں آکر ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے پولیس اوردیگر حکام نے مسلسل کوشش کی کہ محراب پندرانی کا واقعہ دب جائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خون میں انتظامیہ بھی ملوث ہے۔
بلوچستان میں اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، حیات کا واقعہ ہو برمش کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کا جبر ہو یا محراب پندرانی اور رابعہ بلوچ کے ساتھ پیش آنے والا غیر انسانی عمل یہ تمام چیزیں یہ واضح کرتی ہیں کہ بلوچ اس ملک میں کتنے غیر محفوظ ہیں۔
اختتام میں مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ محراب پندرانی اور رابعہ بلوچ کے گھر میں ہونے والے افسوسناک واقعے پر فوری طور پر نوٹس لے کر ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عملی طور پر کوششیں شروع کریں۔
ادھر بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کی جانب سے بھی کمسن رابعہ بلوچ اور محراب پندرانی کے لیے احتجاج کیا گیا اور ریلی نکالی گئی۔جس میں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کرکے رابعہ بلوچ اور محراب پندرانی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسے اکثر و بیشتر واقعات میڈیا تک پہنچ نہیں پاتے ہیں، غیر ملکی میڈیا کے ساتھ پاکستان کی میڈیا بھی بلوچستان میں ہونے والے ان سنگین ناانصافیوں پر بھی مکمل خاموش ہے۔
انھوں نے پاکستانی حکام سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے ان سنگین واقعات پر ایکشن لیں ورنہ ایسے واقعات کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عالیہ امیر علی نے کہا بلوچستان کے عوام عرصہ دراز سے ریاست سمیت اس کے پشت پناہی کرنے والے حواریوں کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بوسیدہ نظام کی وجہ سے خطے میں موجود دوسری اقوام بھی کسمپرسی کے زندگی گزار رہیے ہیں جس کے خلاف اس خطے میں موجود سیاسی شعور رکھنے والے بلوچوں اور دیگر ترقی پسندوں کو انہیں اس نظام سے نجات دلانا ہوگا کیلئے جہدوجہد کرنا ہوگا۔
احتجاج مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما نے کہ ہمیں ہر مظلوم بلوچ کی آواز بنا پڑھیگا اور ان کی آوازوں کو مسحکم کرنے کیلئے دیگر ترقی پسند انسان دوست انکی ہم آواز بنے۔ جبکہ احتجاجی مظاہرہ میں ہیومن رائٹس کونسل،عوامی ورکرز پارٹی،پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انقلابی طلبہ محاز سمیت مختلف مکاتب فکر نے یکجہتی کی۔