رحیم یار خان میں شدت پسندوں کا مندر پر حملہ، توڑ پھوڑ،کئی گھر نذر آتش

0
234

رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں ایک مسلم شدت پسندوں نے ایک ہندو مندر کو نشانہ بنایا۔ مندر کی کھڑکیاں اور دروازے توڑے اور مقدس مورتیوں کی بے حرمتی کی۔جبکہ مندر کے ارد گرد واقع ہندوؤں کے کئی گھر بھی نذر آتش کردیئے۔

ساتھ ہیشدت پسندوں نے اپنی کارروائی فیس بک پر لائیو نشر بھی کی۔

سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد روایتی مذہبی نعروں کے ساتھ مندر میں داخل ہو رہے ہیں اور ساتھ ساتھ، پتھروں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ یہ جھگڑا تب شروع ہوا جب چند روز پہلے ایک مقامی ہندو لڑکے پر مبینہ طور پر ایک مدرسے کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا۔

اے پی کے مطابق مقامی پولیس افسر آصف رضا نے بتایا کہ بدھ کے روز مقامی افراد نے حملے سے پہلے روڈ بلاک کر کے مظاہرہ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس کی وجہ ایک مقامی عدالت کا فیصلہ تھا جس میں 8 برس کے ہندو لڑکے کو مدرسے کی بے حرمتی کے الزام میں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔

اے پی کے مطابق اس بچے کو ایک مقامی مدرسے کی لائیبریری کے قالین پر پیشاب کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ہجوم کا مطالبہ تھا کہ بچے کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔

پولیس آفیسر آصف رضا نے اے پی کو بتایا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے فوج کو طلب کر لیا ہے اور صورت حال اب قابو میں ہے۔

سوشل میڈیا پر مندر پر حملے کی ویڈیو شئیر کرنے والے ایک صارف کپل دیو نے بانی پاکستان محمد علی جناح کی ایک تقریر کے الفاظ کو دوہراتے ہوئے سوال کیا ہے کہ کیا ہم واقعی اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہندو مندر میں دن دہاڑے کیا جانے والے حملہ ملاحظہ کیجیے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ”ہندوؤں کے لیے ایک اور برا دن جب رحیم یار خان کے شہر بھونگ میں شرپسندوں نے ہندوؤں کے گنیش مندر پر حملہ کیا اور اسے فیس بک پر لائیو نشر بھی کیا”۔

پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ فوری طور پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ڈی پی او رحیم یار خان اسد سرفراز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت صادق آباد کے علاقے بھونگ شریف میں پولیس کا آپریشن جاری ہے۔

بعد ازاں انھوں نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ رینجرز اور پولیس اہلکار علاقے میں تعینات کر دیے گئے ہیں، صورتحال کنٹرول میں ہے اور یہاں کے مکینوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت واقعے کے حوالے سے قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا ہے وہاں ہندو برادری کے 80 مکانات اس مندر کے گرد ہی موجود ہیں۔ علاقے میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ یہاں اس سے پہلے پیش نہیں آیا۔

قومی اسمبلی کے رکن اور ملک میں ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیشں کمار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ آج دن بارہ بجے علاقے میں حالات کی کشیدگی کی ابتدا ہوئی۔

بھونگ تھانے کے اے ایس آئی نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں موجود ایک جیولر نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں لکھا کہ ’یہاں مسلمان اور ہندو اکٹھے کھاتے ہیں انھیں اس سے روکا جائے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد وہاں جھگڑا شروع ہو گیا اور یہاں قریب کچے کا علاقہ بھی ہے تو شرپسند عناصر بھی یہاں پہنچ گئے۔

پولیس اہلکار کے مطابق مقامی مندر میں مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ کی اور پولیس جب موقع پر پہنچی تو اس پر بھی پتھراؤ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ابھی واقعے کی ایف آئی آر تو درج نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی ہے تاہم ابھی حالات کنٹرول میں ہے اور رینجرز بھی یہاں موجود ہے۔

پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کو علاقے میں 23 جولائی کو پیش آنے والے ایک واقعے سے جوڑا جس میں ایک آٹھ سالہ بچے پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 24 تاریخ کو ہم نے ایک آٹھ سال کے بچے کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔

انھوں نے بتایا کہ مقامی مدرسے کی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ لائبریری میں ایک بچے نے آکر پیشاب کیا ہے۔

پولیس کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور بچے کو گرفتار کیا گیا۔

اے ایس آئی کے مطابق چونکہ بچہ نابالغ تھا اس لیے قانون کے مطابق 295 اے کی سخت سزا اسے دی نہیں جا سکتی تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے ضمانت پر28 تاریخ کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔

ڈاکٹر رمیشں نے بتایا کہ رحیم یار خان کے ڈی پی او نے اس بچے کو اٹھایا اور وہ پوسٹ ڈیلیٹ کروائی اور پھر اسے چھوڑ دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ لڑکے کو چھوڑنے کے بعد علاقے میں دوبارہ سے ایکٹویٹی شروع ہو گئی۔

’شام کو چار بجے سی پیک کا روڈ 25 کے قریب لوگوں نے بلاک کیا۔ میں نے ایڈیشنل آئی جی کو بتایا۔ ساڑھے چھ بجے انھوں کے مندر پر حملہ کیا تھا۔ گھروں میں جانے کی کوشش کی۔ پھررینجرز کو بلایا گیا۔ اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘

ڈاکٹر رمیش نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کا نوٹس لیں۔ انھوں نے واقعے میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here