پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ خواتین کی آبروریزی میں اضافہ ,

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

اداریہ ماہنامہ سنگر جولائی شمارہ


مقبوضہ بلوچستان ریاستی فوجی جارحیت سے اپنی تشخص،ننگ و ناموس،ثقا فت،زبان وتاریخ اورزمین و نسلیں کھورہا ہے۔
آج اس جدید دور میں نام نہاد پاکستان کی اسلامی فوج ایک طرف بلوچوں کی اجتماعی نسل کشی کر رہی ہے تو دوسری طرف بلوچ آبادیوں پر دھاوا بول کر بچوں،خواتین و بچیوں کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ جنگ زدہ بلوچستان میں ریاستی فوج کی انسان کو لرزہ دینے والی سنگینیوں ں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس انسانی المیے پردنیا خاموش ہے اوربلوچ و بلوچستان کی سانسیں سلب ہورہی ہیں۔


بلوچستان میں روح کو لرزہ دینے والے اس طرح کے جنگی جرائم انسانی حقوق کے عالمی وعلاقائی اداروں اور بلوچ سماج میں سیاست کے دعویداروں کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں ہیں جو پاکستانی فوج کی ایسی المناک ولرزہ خیرکرتوتوں پر بطور مجرم خاموش ہیں۔ایسے جرائم بلوچ کی نسل کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی۔


گذشتہ دنوں تحصیل کیلکور کے متعدد گاؤں میں پاکستانی فوج نے جارحانہ کارروائیوں کے دوران خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ایک لڑکی کے والد کو مزاحمت پر قتل کردیا۔کئی ہفتوں سے جاری ان جارحانہ کارروائیوں میں درجنوں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور پے در پے ظلم و جبر سے تنگ آکر کیلکور کے 9 گاؤں سے لوگوں نے ہجرت کرلی ہے۔
کیلکور گذشتہ سال سے ہی پاکستانی فوج کے زیر عتاب ہے جہاں جارحانہ کارروائیوں کے دوران درجنوں افراد کو قتل کیا جاچکا ہے لیکن جارحانہ کارروائیوں کی تازہ لہر اس سے قبل کی کارروائیوں سے زیادہ شدید ہے جس میں درجنوں خواتین پر تشدد کے ساتھ انہیں جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔


ان علاقوں میں پاکستان سی پیک کے حوالے سے شاہراؤں کا جال بچھا رہا ہے جس کے کنارے آبادبستیوں کو پے در پے فوجی جارحیت کا نشانہ بنارہا ہے اورلوگوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔
علاقے میں زرعی زمینوں پر بھی قبضہ کیا جا رہا ہے تاکہ بلوچستان میں آبادی کی تناسب کو بزور طاقت تبدیل کیا جاسکے۔ پاکستانی فوج سمجھتی ہے کہ جب تک ان شاہراؤں کے کنارے بلوچوں کی آبادیاں موجود ہیں ان کی شاہرائیں غیرمحفوظ ہیں۔ اسی سوچ کی بنیاد پر اس روٹ پر بڑی تعداد میں پاکستانی فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔جنہوں نے ایک بڑی آبادی کو جبری نقل مکانی پر مجبور کیا ہے جو شہروں کے قریب کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
تربت پریس کلب میں گذشتہ دنوں ریاستی جبر کے شکار ضلع پنجگور تحصیل کیلکورکے عمائدین اورخواتین نے ایک پریس کانفرنس میں کہا

کہ ضلع پنجگور کی تحصیل کیلکور میں سیکورٹی فورسزنے چار افراد کو موقع پر قتل کردیا جبکہ ایک زیر حراست شخص تشدد کی وجہ سے جانبر نہ ہوسکا۔ پاکستانی فوج کے مظالم سے تنگ کیلکورکے رہائشیوں نے خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ تربت پریس کلب میں اپنے اوپر فوجی مظالم کی المناک داستان بیان کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا جینا ریاستی اداروں نے دوبر کر دیا ہے، ہمارے گھروں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ فورسز آپ لوگوں کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں، مگر یہ تو ہمیں مار رہے ہیں، ہمارے مال مویشیوں کو بھی فائرنگ کرکے مار دیا گیا ہے، ہمارے پانچ اونٹوں کو گولیوں سے روند ھ دیا گیاہے۔ہمارے خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے، ہمیں سمجھایا جائے، کیا یہ کسی محافظ کے اعمال ہو سکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھاکہ ہمیں اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرنے کی اجازت نہیں ہے،ہمارے فصلوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ہمیں تو اس ملک سے کہیں بھی انصاف ملنے کی توقع نہیں، ہمیں ہمارا جرم بتایا جائے، آخر ہم نے اس فوج کا کیا بگاڑا ہے، ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے سرزمین پر جینے کا حق دیا جائے۔
بلوچستان کے دیہی، قصبوں اور پہاڑی علاقوں میں فوجی جارحیت سے لوگوں کی مال و املاک تو محفوظ پہلے سے نہیں تھے لیکن اب عورتوں اور بچیوں کی آبرورزی کے وارداتوں میں اضافے سے ایک اور المیے کو جنم دیا ہے۔جہاں جہاں فوجی آپریشن کے نام سے سیکورٹی فورسزکے دستے وارد ہوتے ہیں وہاں وہاں جنسی زیادتی کے بے شمار کیسز سامنے آتے ہیں لیکن پاکستانی کنٹرول میڈیااور پھر بلوچ قوم اپنی عزت و وقارکی خاطر اس طرح کے غیر انسانی و مجرمانہ وارداتوں کو چھپانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔کیونکہ بلوچ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی و آبرو رزی کے اس طرح کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے انہیں ایک کرب انگیز نفسیاتی دلدل میں دھکیل دیا ہے اور جانیں کب وہ اس آزار سے نکل پائیں گے۔
یہ امر قابل افسوس ہے کہ صحافتی وانسانی حقوق کے ادارے،سیاسی و سماجی حلقے، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اوربلوچ پارلیمنٹیرین بلوچستان اوربلوچ عوام کے ساتھ ریاستی سیکورٹی فورسز کی جارحیت وتمام جنگی جرائم پر خاموش ہیں۔ اور بطور معاون کاراس انسانی ا لمیے میں شریک مجرم ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment