5 اکتوبر 2025 کو ادارہ سنگر کو اپنے طویل اور پرکٹھن سفر میں ہزاروں مشکلات اور رکاوٹوں سے پرے پہلی بار ایک بہت بڑی قیامت کا سامنا کرنا پڑا، جہاں ادارے نے اپنے بانی اور چیف ایڈیٹر شوکت بلیدی بلوچ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔
ادارے کی بنیاد رکھنے کے بعد گزشتہ 13 سالوں سے وہ اسے اپنے خون سے سینچ کر زندہ رکھے ہوئے تھے۔ اس دوران درجنوں میڈیا پلیٹ فارمز بلوچ قوم اور بلوچستان کی آواز بننے کے دعوے لے کر ابھرے اور ڈوب گئے لیکن سنگر میڈیا شوکت بلیدی کے قومی تشخص، بنیادی آزادی اور سرزمین بلوچستان سے پرخلوص وابستگی کی بنیاد پر قائم رہا۔
شوکت بلیدی کی بے وقت رخصتی ادارہ سنگر کے لیے ایک بہت بڑا نقصان تو ہے ہی لیکن بلوچ تحریکِ آزادی کے ایک سرگرم اور متحرک سپاہی کے طور پر بھی ان کا ناگہاں چلے جانا ایک خلا چھوڑ گیا ہے جسے پُر کرنے میں سالوں درکار ہوں گے۔
بلوچستان میں جاری ریاستی جبر اور پاکستانی میڈیا میں بلوچ قوم اور بلوچستان کو سرے سے نظرانداز کرنے کی ریاستی پالیسی سنگر میڈیا کی بنیاد کا محرک بنی۔ انہوں نے بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں میڈیا کے خلا کو محسوس کرتے ہوئے سنگر کی بنیاد رکھی۔ اس کی شروعات بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے متعلق مختلف معلوماتی کتب کے اشاعتی سلسلے کے ساتھ 2009 میں ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے تحقیق اور دیگر معلوماتی پراسپیکٹس کے ذریعے بلوچ قوم کو فکری شدت کے ساتھ تحریک اور آگاہی فراہم کرنا تھا۔
مختلف کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ہی سنگر پبلی کیشن کی جانب سے جنوری 2012 کو ایک ماہانہ میگزین کا اجرا کیا گیا تاکہ بلوچ قومی آواز کو مقامی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر آسان رسائی فراہم کی جاسکے۔
ادارے کی ماہنامہ سنگر میگزین اور دیگر کتابی سلسلے جو کراچی کی ایک پرنٹنگ پریس میں چار سے پانچ سالوں سے رازداری کے ساتھ چھپ رہے تھے، ریاستی فورسز نے ایک دن مذکورہ پریس پر چھاپہ مار کر اسے سیل کر دیا اور مالک کو پابندِ سلاسل کردیا۔ اس کے بعد سنگر کا طباعتی سفر تو رک گیا لیکن ڈیجیٹل میڈیا کا سفر شروع ہوا۔ سنگر کے نام سے ویب سائٹ کا اجرا کیا گیا جو آج بھی اپنا سفر تمام تر ریاستی رکاوٹوں اور سائبر اٹیکس کے باوجود دنیا بھر میں جاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بلوچستان میں ریاست نے اس پر پابندی لگا کر اسے بند کر دیا ہے۔
بانی سنگر کا وژن تھا کہ ہم بلوچ قوم کی تاریخ اور ان کی آزاد سرزمین کی بحالی کے لیے ان کی بہادرانہ کوششوں کو پوری طرح سے بیان کرنے کی کوشش کریں جو کہ نام نہاد آزاد پاکستانی میڈیا نے چھپائی ہوئی ہیں۔
میڈیا نہ صرف معاشرے تک معروضی حالات و حقائق تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ یہ ذہن سازی میں بھی کلیدی کردار کا حامل ہے۔ اس کا تعلق پروپیگنڈہ کے ذرائع سے بھی ہے۔ بالادست حکمرانوں نے میڈیا کو اس کے حقیقی کردار یعنی حقائق سے آگاہی کی بجائے اسے محکوموں و مظلوموں کے خلاف ایک پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، جہاں بھی قومی و طبقاتی جبر اور حاکمیت و محکومی پر مبنی نظامِ حکومت اور ریاستی ڈھانچے برقرار ہیں وہاں میڈیا حکمرانوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہے۔
شوکت بلیدی نے بلوچستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے میڈیا کو چنا۔ چونکہ میڈیا کا یہ کردار حکمرانوں اور بالادست قوتوں کے مفادات کا ترجمان اور محکوموں تک حقائق کی رسائی کے برعکس حقائق کو مسخ کرنے و پوشیدہ رکھنے کا حامل رہا ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے دور میں کہ جب حاکم و محکوموں کے درمیان جاری کشمکش بڑھ کر ایک فیصلہ کن جنگ کی شکل اختیار کر جاتی ہے تب میڈیا نفسیاتی محاذ پر تباہ کن جنگی ہتھیار ثابت ہوتا ہے، اور پروپیگنڈہ وار یا نفسیاتی جنگ میں کامیابی کا انحصار فریقین کی طرف سے میڈیا اور ابلاغ کے مختلف ذرائع کے درست استعمال کرنے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
اس تناظر میں ماہنامہ ”سنگر“ بلوچ قوم سمیت محکوموں و مظلوموں کا ایسا مورچہ ثابت ہوا ہے جہاں وہ محکومی اور قومی و طبقاتی جبر کی ذہنی قبولیت بخشنے والی بالادست و قابض قوتوں کی نفسیاتی جنگ کا بھرپور جواب دے رہا ہے۔
شوکت بلیدی کے وژن اور مضبوط ادارت کے باعث ”سنگر“ نے اپنی استعداد کے مطابق یہ بھرپور کوشش کی ہے کہ نہ صرف بلوچستان کے زمینی حقائق، بالادست قوتوں کی نوآبادیاتی پالیسیوں اور بلوچ قومی شناخت اور سیاست و معیشت پر ان پالیسیوں کے مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات، بلوچ نسل کش اقدامات و انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور حقائق کو مسخ کرنے والے حکومتی پروپیگنڈے کی اصلیت اور پسِ پردہ مقاصد سے بلوچ قوم کو مکمل آگاہی فراہم کی جا سکے، بلکہ نوآبادیاتی جبر و استحصال اور محکومی کے خاتمے کے حامل حریت پسندانہ انقلابی و سائنسی نظریات کے فروغ اور بلوچ عوام کی نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی تعلیم و تربیت کا تسلسل بھی باقاعدگی سے قائم رہے، ایک ایسے وقت میں کہ جب حکمران قوتوں نے بلوچستان پر چھائی ہوئی خاموشی کو توڑنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے صرف اشاعت و نشریات ہی نہیں بلکہ پورے انسانی وجود اور سوچنے پر بھی سنسرشپ عائد کر رکھی ہے۔
شوکت بلیدی نے ”سنگر“ کے ذریعے بلوچ قومی جہد اور بلوچستان سے متعلق ہر حقیقت کو انتہائی جرأت مندی سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جس میں بلوچ تحریک کی حاصلات اور اس کے پاکستان سمیت علاقائی و عالمی اقتصادی و سیاسی حالات پر مرتب ہونے والے اثرات بھی شامل ہیں۔ غرض ”سنگر“ نے ہر اس حقیقت کو آشکار کیا ہے جسے حکمران قوتوں نے پوشیدہ اور دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی، اس کے علاوہ بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات جن کو پسِ پردہ محرکات و مادی اسباب کے تناظر میں سمجھے بغیر بلوچ تحریک کی درست بنیادوں پر پیش قدمی ممکن نہیں ہے، سے آگاہی کا فریضہ ادا کرنے کی ”سنگر“ نے حتی المقدور کوشش کی ہے۔
جبکہ بلوچ قومی تہذیب و ثقافت، تاریخ و سیاست، زبان و ادب اور قومی شناخت سے متعلق دیگر شعبوں کو بھی زندہ رکھنے اور پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تمام تر مشکلات اور حکومتی پابندیوں سے دوچار رہنے کے باوجود ماہانہ اشاعت کے علاوہ روزانہ آن لائن اشاعت اور سنگر پبلی کیشنز کی ویب سائٹس، ریڈیو نشریات تک وسعت اختیار کر کے ”سنگر“ نے خود کو ایک مضبوط، متحرک اور فعال مورچہ ثابت کیا ہے۔ بعد ازاں مالی مشکلات اور ریاستی سائبر اٹیک سمیت مین پاور کی کمی سے ریڈیو نشریات کو جاری رکھنا مشکل رہا۔
”سنگر“ کے اس متحرک، مزاحمتی و حقیقی صحافت میں مضبوط اور انقلابی نظریاتی کردار میں شوکت بلیدی کا اہم کلیدی حصہ رہا ہے۔
بلوچ قومی جہدِ آزادی میں ماہنامہ ”سنگر“ کو ایک ایسا انقلابی مورچہ قرار دیا جا سکتا ہے، جہاں نہ صرف بالادست قابض قوتوں کے لغو پروپیگنڈے و نفسیاتی حملوں کو ناکام بنا دیا گیا بلکہ اس کا منھ توڑ جواب بھی دیا گیا۔ اپنے 13 سالہ اشاعتی عرصے میں ”سنگر“ نے معروضی حقائق، نظریاتی و سیاسی تعلیم و تربیت اور بلوچ قومی شناخت کے حوالے سے وہی تاریخی کردار ادا کیا ہے جو کسی بھی قوم دوست، عوام دوست، انقلابی ترجمان کا فریضہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ابھی تک مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے تاہم اپنے محدود وسائل، ریاستی جبر و استبداد کے باعث آزادانہ تحقیق و تخلیق کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور دیگر مسائل کے باوجود ”سنگر“ نے مختصر عرصے میں حریت پسند انقلابی نوجوانوں اور بلوچ عوام کو تحریکِ آزادی کے گرد متحد و منظم کرنے اور ان کی ہمت افزائی میں اپنی کلیدی حیثیت کو عملی طور پر منوایا ہے۔
”سنگر“ نے فریب کاری و مکاری اور مبالغہ آمیزی کو اپنا ہتھیار بنانے کی بجائے بلوچ قوم سمیت پوری دنیا کے سامنے پاکستانی اور ان کے عالمی سامراجی اتحادی بالادست قابض قوتوں کے بلوچ سرزمین پر اپنے نوآبادیاتی قبضے اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے عزائم کی حامل ہر شکل و صورت کی بدنمائی کو بے نقاب کیا ہے، جبکہ تحریک کے حریت پسند سائنسی انقلابی نظریے کی ترویج کرتے ہوئے بلوچ سماج میں قبائلی، مذہبی و فرقہ وارانہ دیگر تنگ نظر، غیر سائنسی و قدامت و رجعت پسندانہ شدت پسند رجحانات کی بیخ کنی میں اپنا مؤثر کردار ادا کیا ہے۔
اپنی اس انقلابی فکری سرگرمی کے باعث سنگر نے نوآبادیاتی نظریات کے زیر اثر رائے عامہ کو بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو کسی بھی قومی انقلابی تحریک کی سماجی بنیادوں کو وسیع و گہرا بناتی ہے، اور اس کے بغیر تحریک کی کامیابی اور قابض قوتوں کو شکست دینا ممکن نہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ رائے سماج پر حکومت کرتی ہے اور کوئی بھی رائے اپنے پسِ پردہ ذہنی و فکری تصورات کا عکس ہوتی ہے جس پر انسان کی عملی سرگرمی کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ رائے زندگی کے تمام سماجی و قدرتی مظاہر بشمول سیاسی عمل کی طرف انسانی رویوں اور ترجیحات کے تعین میں رہنمائی کرتی ہے۔ اسی لیے بالادست قوتیں محکوموں کی اپنی انقلابی تحریک و سیاسی عمل میں شعوری شرکت کو روکنے کے لیے ایک ایسی ردِانقلابی رائے عامہ کی تشکیل پر اپنی پوری پروپیگنڈہ مشینری کا بھرپور استعمال عمل میں لاتی ہیں جو نوآبادیاتی غلبے کے لیے ذہنی قبولیت کی آراء تشکیل دے سکے۔
سنگر نے اس نوآبادیاتی حربے کو متعدد مقامات پر ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ریاستی زیرِ اثر جانبدارانہ و منافقانہ کردار کے پیش نظر بلوچستان میں نوآبادیاتی ریاستی جبر و استبداد اور نسل کش جنگی جرائم کے بارے میں بلوچ قوم اور دنیا کو مسلسل آگاہ رکھنے میں ”سنگر“ ایک سرگرم ذریعہ ابلاغ کے طور پر سامنے آیا ہے، اور جن بلوچ نسل کش جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی کے ریاستی اقدامات کو ریاستی گماشتہ میڈیا نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کرتا ہے انہیں اس انقلابی اخبار نے پوری تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے لایا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ تحریک کی وہ کامیابیاں اور حاصلات جنہوں نے استعماری ریاستی ڈھانچے کو کھوکھلا اور بےقابو بحران سے دوچار کر دیا ہے کو چھپانے کی تمام کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے انہیں نمایاں طور پر آشکار کیا ہے۔
سنگر کے اس کردار نے بالادست قوتوں کے گماشتہ میڈیا کے بلوچ سمیت محکوم قوموں کے دشمن اور ریاستی جبر و استبداد کے حمایتی روپ کو بے نقاب کیا ہے۔ ”سنگر“ نے صرف تعلیمی و سیاسی تربیت، آگاہی اور ذریعہ تشہیر و ابلاغ کا فریضہ انجام نہیں دیا بلکہ یہ تحریک کی تنظیم کاری اور اسے وسیع بنانے والے منتظم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی انقلابی پرچہ نظریاتی پھیلاؤ کے گرد تنظیم سازی اور سماج میں اس کی قبولیت کی فضا بھی سازگار بناتا ہے۔ جہاں تحریک کے منظم ڈھانچے نہیں ہیں وہاں سنگر نے متعلقہ آبادیوں کو تحریک کے ساتھ تنظیمی اتحاد اور وابستگی کی طرف مائل کیا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچ قوم اور مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے قارئین کو بین الاقوامی و علاقائی معاشی، سیاسی و سماجی بدلتے حالات و رونما ہونے والے نت نئے واقعات، قومی و علاقائی اور عالمی تنازعات پر بھی باقاعدگی سے بے لاگ تبصرے و تجزیے پیش کیے ہیں۔
کیونکہ یہ ادارہ جانتا ہے کہ آج دنیا گلوبل اکائی بن چکی ہے اور ایک خطے کے حالات دیگر خطوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ حالات کی یہ اثراندازی جدلیاتی ہے جو باہم اثر پذیری کی حامل ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب عالمی و علاقائی سامراجی قوتیں اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی و سیاسی بحران سے دوچار اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں، اور دنیا کی ازسرنو بندر بانٹ کے لیے کرۂ ارض اور اس پر بسنے والوں کو جنگوں اور جارحیت کے ذریعے تباہ و برباد کر رہی ہیں، اور دوسری طرف حقوق سے محروم اقوام و طبقات کی تحریکات میں ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے۔ ایسے میں تحریکات کی سمت کو درست رکھنے اور درست لائحہ عمل و حکمتِ عملی کے لیے ان حالات سے آگاہی ناگزیر حیثیت اختیار کر گئی ہے، جسے ”سنگر“ نے پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ اب یہ مورچہ اپنے آغاز سے زیادہ مضبوطی اور وسعت حاصل کر چکا ہے۔ اس وقت ادارے کے تحت بلوچ قوم سمیت دنیا کو بلوچستان کے زمینی حقائق سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر نشریات کا عمل جاری ہے۔
شوکت بلیدی کی زیرِ ادارت ادارے کی 13 سالہ کارکردگی تمام تر کمزوریوں کے باوجود قابلِ تحسین ہے۔ بانی کے نظریات کے پیشِ نظر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سنگر کا مزاحمتی و حقیقی صحافتی کردار مزید گہرا اور وسیع ہوگا جو بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی کامیابی میں گہرے اثرات کا حامل ہوگا۔
***