فرانسیسی صدر کا روانڈا میں نسل کشی کی ذمہ داری تسلیم کرنیکا اعلان

0
204

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ فرانس روانڈا میں آٹھ لاکھ انسانوں کی موت کی وجہ بننے والی نسل کشی کا ’شریک مجرم نہیں‘ تھا مگر اس نے روانڈا میں اس قتل عام کی مرتکب حکومت کی طرف داری کی تھی۔

صدر ایمانوئل ماکروں جمعرات چھبیس مئی کی صبح روانڈا کے دارالحکومت کیگالی پہنچے تھے اور ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرنا تھا۔ افریقی ملک روانڈا اور فرانس کے باہمی تعلقات 1994ء کی نسل کشی کے بعد انتہائی خراب ہو گئے تھے۔ صدر ماکروں گزشتہ ایک عشرے کے دوران اس افریقی ملک کا دورہ کرنے والے پہلے فرانسیسی رہنما ہیں۔

روانڈا کی طرف سے فرانس پر کئی بار یہ الزام لگایا جا چکا ہے کہ وہ اس ملک میں نوے کی دہائی کے وسط میں ہونے والی اس نسل کشی کا شریک ذمے دار ہے، جس میں تقریبا? آٹھ لاکھ انسان مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت اس ملک کے ٹوٹسی نسل کے باشندوں اور ہوٹو نسل کے اعتدال پسند شہریوں کی تھی۔

اس بارے میں فرانس کے ایک تفتیشی کمیشن نے مارچ میں اپنی ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی حکام پر اس امر کی ‘انتہائی غالب اور سنجیدہ نوعیت کی ذمے داری‘ عائد ہوتی ہے کہ وہ روانڈا میں اس المناک قتل عام کا قبل از وقت اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق فرانسیسی حکام اپنے نوآبادیاتی رویے کی وجہ سے جیسے نابینا ہو گئے تھے۔ تاہم رپورٹ میں فرانس کو اس نسل کشی کا براہ راست ذمے دار یا شریک مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔

روانڈا کے موجودہ صدر پال کاگامے اس نسل کشی کے سلسلے میں کئی بار فرانس کو ذمے دار قرار دے چکے ہیں۔ مارچ میں جاری کردہ فرانسیسی تحقیقاتی رپورٹ کے بارے میں صدر کاگامے کا کہنا ہے کہ یہ دستاویز روانڈا کے عوام کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

ساتھ ہی صدر پال کاگامے نے کہا کہ روانڈا کے عوام اس نسل کشی میں فرانس کے کردار کو ”بھولیں گے نہیں لیکن معاف کر سکتے ہیں۔“

1994ء میں روانڈا میں جاری خانہ جنگی کے دوران اس وقت کے صدر جووینال ہابیاری مانا کو لے کر جانے والے ہوائی جہاز کو مار گرایا گیا تھا۔ اس کے بعد وہاں وہ قتل عام شروع ہو گیا تھا، جس دوران صرف تقریبا? 100 دنوں میں آٹھ لاکھ انسانوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس نسل کشی کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ مارچ میں جاری کردہ فرانسیسی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا، ”فرانسیسی حکام نے روانڈا کی حکومت کو ہتھیار فراہم کیے، اس کی مشاورت کی، تربیت فراہم کی، حکومتی فورسز کو مسلح کیا اور حکومت کی حفاظت بھی کی تھی۔“ تاہم فرانس اب تک اس نسل کشی میں اپنے کسی کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔

جمعرات ستائیس مئی کے روز روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں صدر ماکروں نے نسل کشی کی جیسوزی یادگار کا دورہ کیا، جہاں اس قتل عام کے دوران مارے جانے والے ڈھائی لاکھ سے زائد ٹوٹسی باشندوں کی لاشیں دفن کی گئی تھیں۔

اس یادگار کے دورے کے موقع پر اپنے خطاب میں صدر ماکروں نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وسطی افریقی ملک میں 1994ء کی نسل کشی کی ”بہت بھاری ذمے داری“ فرانس پر عائد ہوتی ہے۔

صدر ماکروں نے اس بات کا تو تفصیل سے ذکر کیا کہ کس طرح فرانس آٹھ لاکھ انسانوں کی جانیں بچانے میں ناکام رہا تھا۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں فرانس کے کردار پر باقاعدہ معافی نا مانگی۔

صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ فرانس اس نسل کشی کا ‘شریک مجرم نہیں‘ تھا مگر اس نے روانڈا میں اس قتل عام کی مرتکب حکومت کی طرف داری کی تھی۔ اسی لیے ان حالات کی ‘بہت بڑی ذمے داری‘ فرانس پر عائد ہوتی ہے، جن میں روانڈا اس نسل کشی کا شکار ہوا تھا۔

فرانسیسی صدر نے کہا، ”روانڈا میں فرانس کا ایک کردار ہے، تاریخ ہے اور سیاسی ذمے داری بھی۔ یہ فرانس کا فرض ہے کہ وہ تاریخی حقائق کا سامنا کرے اور روانڈا کے عوام کے ان مصائب کو بھی تسلیم کرے، جن کی وہ وجہ بنا تھا، وہ بھی اس طرح کہ تب فرانس نے بہت طویل عرصے تک سچائی کا جائزہ لینے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی تھی۔“

سن 2017 میں اقتدار میں آنے والے فرانسیسی صدر ماکروں گزشتہ چار برسوں سے اس کوشش میں ہیں کہ پیرس اور کیگالی کے تعلقات بہتر بنائے جانا چاہییں۔ ان کا روانڈا کا موجودہ دورہ انہی کوششوں کا نقطہ عروج ہے۔

ماکروں سے پہلے روانڈا کا دورہ کرنے والے آخری فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی تھے، جو 2010ء میں کیگالی گئے تھے۔

کل جب صدر ماکروں کیگالی پہنچے تھے، تو ان کا استقبال کرنے کے لیے شہر کی سڑکوں پر فرانسیسی پرچم والی جھنڈیاں لیے عام شہریوں کے ایسے کوئی ہجوم موجود نہیں تھے، جیسے عام طور پر غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت کے دوروں کے موقع پر دیکھنے میں آتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here