ملائیشیا کے سابق وزیر داخلہ محی الدین یاسین نے مہاتیر محمد کے استعفے کے بعد ملک کے نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا جبکہ سابق وزیر اعظم نے اس اقدام کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق محی الدین دراصل مہاتیر محمد کی جماعت برساتو کے سربراہ ہیں اور ان کی جانب سے وزیراعظم کا منصب سنبھالے جانے کے بعد ان کا اتحاد یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن(یو ایم این او) دوبارہ اقتدار میں آ گیا ہے جسے 2018 میں انتخابات میں شکست کے بعد اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔
برساتو نے رواں ہفتے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کردیا تھا جس کے ساتھ ہی اتحادی حکومت ختم ہو گئی تھی۔
2018 میں مہاتیر محمد نے انور ابراہیم کے ساتھ اتحاد قائم کرتے ہوئے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی تھی اور 1957میں ملک کی آزادی کے بعد سے اقتدار میں رہنے والی جماعت یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن (یو ایم این او) کو شکست دے کر نئی حکومت بنا لی تھی۔
دنیا کے معمرترین سیاسی رہنما مہاتیر محمد نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہش ظاہرکی تھی لیکن انہیں محی الدین کے ہاتھوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جو ملک کے مسلم اکثریتی اتحاد کے سربراہ ہیں۔
بادشاہ کی جانب سے ہفتہ کو محی الدین کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیے جانے کے بعد مہاتیر نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور ملک بھر میں عوام نے بادشاہ کے فیصلے کو جمہوریت مخالف اقدام قرار دیتے ہوئے احتجاج شروع کردیا تھا۔
محی الدین کے حلف اٹھانے سے قبل مہاتیر محمد نے ان پر دھوکا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نئے وزیر اعظم کی حمایت ووٹ کو چیلنج کریں گے جس سے ملک میں موجودہ سیاسی بحران کے مزید شدت اختیار کرنے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک انتہائی عجیب چیز ہے کہ ناکام لوگ حکومت بنا رہے ہیں اور کامیاب لوگ اپوزیشن میں رہیں۔
محی الدین کے اتحاد میں سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کی جماعت یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن(یو ایم این او) بھی شامل ہے جس کے متعدد اراکین پر کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں۔
مہاتیر محمد کی جانب سے اختتامی لمحات میں عوام کی اکثریت حاصل ہونے کا عملی مظاہرہ کیے جانے کے باوجود اتوار کو شاہی محل میں محی الدین نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا۔
وزیر اعظم بننے کے لیے امیدوار کو بادشاہ کے سامنے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ اسے کم از کم 112 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
بادشاہ کی جانب سے محی الدین کو وزیر اعظم بنائے جانے کے باوجود عوام نے انہیں وزیر اعظم ماننے سے انکار کردیا اور اس فیصلے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔
ملائیشیا میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ‘ناٹ مائی پی ایم'(یہ میرا وزیر اعظم نہیں) کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے اور ایک لاکھ سے زائد افراد نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام 2018 کے انتخابات میں ووٹرز کی جانب سے کیے گئے انتخاب پر دھوکا ہے۔
1981 سے 2003 تک وزیر اعظم رہنے والے مہاتیر محمد سیاست میں واپسی کرتے ہوئے دوسال قبل دوبارہ وزیر اعظم بنے تھے اور انہوں نے تازہ اقدام پر خدشہ ظاہر کیا کہ نئی حکومت نجیب کے خلاف زیرسماعت اربوں ڈالر کے اسکینڈل کے مقدمات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محی الدین کی حکومت کمزور پوزیشن میں ہے کیونکہ یہ بات واضح نہیں کہ انہیں حکومتی اکثریت حاصل ہے یا نہیں اور وہ ابھی اکثریت کی حمایت کے بغیر محض ایک چھوٹی جماعت کے سربراہ ہیں۔
خیال رہے کہ ملائیشیا کے نئے وزیراعظم محی الدین کو یو ایم این او کے اہم ترین رہنماو¿ں میں سے ایک تصور کیا جاتا تھا لیکن 2015 میں کرپشن اسکینڈل پر نجیب رزاق کو تنقید کا نشانہ بنانے پر برطرف کردیا گیا تھا جس کے بعد محی الدین نے مہاتیر محمد کے ساتھ اتحاد کرکے تاریخی انتخابات میں فتح حاصل کی تھی اور نجیب کے اقتدار کا خاتمہ کردیا تھا۔