بچوں کے حقوق کی تنظیم ‘سیو دا چلڈرن’ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ میانمار کی فوج نے منتخب حکومت پر قبضے کے بعد کشیدگی کے دوران مبینہ طور پر 40 سے زائد بچوں کو بھی ہلاک کردیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تنظیم کا کہنا تھا کہ میانمار کی صورت حال دگرگوں ہے جہاں 6 سالہ بچہ بھی فوج کی فائرنگ کی زد میں آچکا ہے۔
مقامی تنظیموں کے مطابق میانمار میں اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 536 سے زائد ہوچکی ہے۔
دوسری جانب گرفتار رہنما آنگ سان سوچی پر میانمار کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا بھی مقدمہ کردیا گیا ہے۔
قبل ازیں آنگ سان سوچی اور دیگر 4 رہنماو¿ں کے خلاف گزشتہ ہفتے مقدمات قائم کیے گئے تھے، جن کے تحت انہیں 14 سال قید کی سزا ہوگی تاہم نئے مقدمات مزید اضافہ ہیں۔
تازہ الزامات میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس انتخابات کے دوران کووڈ-19 کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی گئی، غیر قانونی واکی ٹاکی کا استعمال کیا اور ایسی معلومات شائع کیں جو خوف و ہراس پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مسلح فورسز سڑکوں پر اندھادھند فائرنگ کرتی ہیں اور کئی افراد اپنے گھروں میں ہی نشانہ بن چکے ہیں۔
منڈالے سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کا کہنا تھا کہ ان کی 6 سالہ بچی کو پولیس نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ ان کے والد کو گرفتار کرنے کے لیے گھر پر چھاپہ مار رہی تھی جو مارچ کے بعد واپس گھر آئے تھے۔
مقتول بچی کی بہن کا کہنا تھا کہ پولیس نے دروازے پر لاتیں ماریں اور جب دروازہ کھل گیا تو انہوں نے میرے والد سے گھر میں کسی اور کی موجودگی کے بارے میں بھی پوچھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میرے والد نے نفی میں جواب دیا تو ان پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گھر کی تلاشی شروع کردی اور اسی دوران 6 سالہ بچی دوڑ کر اپنے والد کے پاس پہنچی۔
انہوں نے کہا کہ میری 6 سالہ بہن پر پولیس نے فائر کیا اور وہ دم توڑ گئیں۔
میانمار کے شہر منڈالے میں دیگر واقعات میں 14 سالہ لڑکے کو بھی نشانہ بنایا گیا اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں گھر کے اندر گولی مار دی گئی۔
دارالحکومت ینگون میں باہر کھیلنے والے 13 سالہ لڑکے کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
بچوں کے حقوق کی تنظیم نے خبردار کیا کہ ان کارروائیوں کے دوران بچوں کی ایک بڑی تعداد زخمی بھی ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے ملک میں منتخب سیاسی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور دیگر سیاست دانوں سمیت آنگ سان سوچی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔
فوج کے اس عمل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے، جس میں اب تک فورسز کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس کے باعث سیکڑوں مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے۔