چین نے پچھلی دہائی میں بحیرہ ہند کے علاقے میں اپنی موجودگی کئی گنا بڑھائی ہے۔
اس بارے میں سوسائٹی فار پبلِک سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور انڈین بحریہ کے رٹائیرڈ کموڈور، سی ادے بھاسکر کا کہنا ہے کہ بحیرہ ہند کے حوالے سے چین ایک خطرے سے زیادہ ایک چیلنج کے طور پر ابھرا ہے۔
بھاسکر کہتے ہیں، ‘میں یہ کہوں گا کہ اس وقت بحیرہ ہند میں چین کی موجودگی ایک چیلنج ہے۔ بحریہ کے نقطہ نظر سے اس نے اب تک خطرے کا روپ حاصل نہیں کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی انڈیا کو بہت ہوشیار رہنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ بحیرہ ہند کے علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔’
چینی بحریہ پہلی بار سن 2008-09 میں قزاقوں کے خطرے کو روکنے کی مہم کے تحت بحیرہ ہند میں داخل ہوئی اور پھر وہیں ڈٹ گئی۔
گزرے برسوں میں چین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بحیرہ ہند کے ان علاقوں میں اس کی موجودگی برقرار رہے جو اس کے لیے سیاسی لحاظ سے اہم ہیں۔
ادے بھاسکر کے مطابق انڈیا کے لیے اس کا مطلب ہے کہ جس ملک کو اب تک صرف ایسا پڑوسی سمجھا جاتا تھا جس کی سرحد آپ کی سرحد سے جڑی ہے، اب اس نے سمندری قربت بھی حاصل کر لی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے انڈیا کی اپنی پروفائل اور علاقے میں انڈیا کے مفادات کو کم کرتا ہے۔
‘تشویش کی بات یہ ہے کہ چین بحریہ کے بحیرہ ہند میں نقش قدم اب جبوتی سے لے کر افریقہ تک پہنچ گئے ہیں۔ چین اور ایران کے درمیان حال ہی میں ایک بڑا معاہدہ طے پایا ہے۔ ایران میں چینی موجودگی کا بھی ایک سنجیدہ مطلب ہے کیونکہ ایران انڈیا کے لیے اہم ہے اور تیل کی فراہمی کے راستوں کے حوالے سے ایران کی ایک اہمیت ہے۔’
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چین بحیرہ ہند کے علاقے میں بحری سازو سامان کے ایک بڑے سپلائر کے طور پر ابھر رہا ہے اور وہ پہلے سے ہی میانمار، سری لنکا اور پاکستان کو فوجی سازوسامان دینے والا سب سے بڑا سپلائر رہا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں بنگلہ دیش نے چین سے کچھ آبدوز خریدیں ہیں جس کا اثر انڈیا کے بحیرہ ہند کے علاقے میں پڑ سکتا ہے۔