ترپن سالہ مشتاق احمد کو گزشتہ برس بنگلادیش کے متنازعیہ ڈجیٹل سکیورٹی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر کورونا وبا کے حوالے سے حکومتی کارکردگی پر نکتہ چینی کی تھی۔
پیر کو قریب تین سو طلبہ نے ڈھاکا یونیورسٹی میں مشتاق احمد کی موت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ریلی میں حکومت کو ان کی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مظاہرین ملک کے سائیبر سکیورٹی قوانین کے خاتمے کے لیے نعرے لگارہے رہے۔
مشتعل طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس سے نکل کر وزارتِ داخلہ کی عمارت کی جانب بڑھنے کی کوشش کی لیکن پولیس کے دستوں نے انہیں آگے جانے سے روک دیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق بنگلادیش کے سائیبر قانون نے ملک میں آزادءاظہار کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا ہے۔
مشتاق احمد اپنے ملک کے معروف ادیب اور سیاسی مبصر تھے۔ وہ گزشتہ برس سے جیل میں قید تھے۔ ان کی گرفتاری کی وجہ سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف تنقیدی تبصرے تھے۔ اس دوران عدالت نے ان کی ضمانت کی چھ درخواستیں مسترد کیں۔
حکام کے مطابق ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہے کہ ان کی موت قدرتی تھی لیکن مظاہرین کا الزام ہے کہ جیل میں ان پر تشدد کیا گیا اور ان کی موت کی ذمہ دار حکومت ہے۔
بنگلادیش میں مشتاق احمد کے علاوہ دس دوسرے افراد کو بھی گزشتہ برس ڈجیٹل سکیورٹی قوانین کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا۔ ممتاز کارٹونسٹ کبیر کشور بھی ان میں شامل ہیں۔ کشور کے وکلائ کا کہنا ہے دوران حراست ان کے مو¿کل پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش نے 2018 میں ڈیجیٹل سکیورٹی سے متعلق سخت قوانین کا نفاذ کیا۔ اس میں حکومت کے خلاف پراپیگنڈا یا سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو چودہ برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت بنگلادیش کی جنگ آزادی، ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن اور قومی ترانے پر بھی تنقید کی ممانعت ہے۔ ملک میں بد امنی پھیلانے یا نظام کو درہم برہم کرنے کی باتیں کرنے والوں کو دس سال کی قید سنائی جا سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور صحافتی اداروں نے اس قانون کو اظہار آزادی اور جمہوری اقدار کے برخلاف قرار دیا ہے اور ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اسے واپس لے۔