احساس – تحریر: ڈاکٹر جلال بلوچ

0
338

بعض اوقات کوئی منظر، کوئی تصویر، کوئی بات یا کوئی عمل انسان کو سوچنے اور ردعمل کے اظہار پہ مجبور کرتا ہے۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے والی منظور پشتین کی تصویر نے مجھے بھی قلم اٹھانے پہ مجبور کیا۔ بلوچ اسیران سے اظہار یکجہتی کے موقع پر کھینچی گئی منظور کی اس تصویر میں عظیم انقلابی ڈاکٹر ارنسٹو چی گویرا کی اس قول کی پاسداری نظر آتی ہے کہ”دنیا کے کسی خطے میں،کسی شخص کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو پوری طرح محسوس کرو، ایک انقلابی کی سب سے خوبصور ت صفت یہی ہے۔“ عمومی طور پرزندہ انسانوں پہ قلم کو جنبش دینا انتہائی مشکل امر ہے، لیکن بسا اوقات ایک راقم کی نظر سے جب کوئی منظرگزرتا ہے تو وہ اوراق پہ الٹی، سیدھی لکیریں کھینچنے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔

منظور پشتین کی اس تصویر نے مجھے بھی یہ سوچنے پہ مجبور کیا کہ آخر وہ کونسا درد ہے جو منظور کے چہرے پہ عیاں ہے، اس احساس کا راز کیا ہے جو منظور کے چہرے پہ ایک کتاب کی مانند واضح ہے جو قاری کو پڑھنے کے لیے اکسا رہا ہے، جو انسانیت کے دعویداروں کا دعوت دے رہا ہے کہ آؤ! اور دیکھو! ان طاغوتی قوتوں کی زور آوری کے نظارے، آودیکھو! کہ دنیا کو تہذیب سے آشنا کرنے والی قوم کی حالتِ زار کیا ہے، آو! ذرا۔۔۔سامنے بھی آؤ۔۔۔ ان افتاد گان خاک سے ملو، انہیں سنو! کہ اس سفر میں انہوں نے کتنے درد جھیلے ہیں، کتنے دکھ برداشت کیے ہیں، آؤ! ان سے ملو! جن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوسیلاب کی سی صورت اختیار کرچکے ہیں، آؤ! اگر میرا یقین نہیں کرتے تو خود آکر دیکھو کہ کس حال میں ہیں یہ زمین زادیاں۔؟ جن میں ایسی عورتیں بھی شامل ہیں جو اپنے پیاروں کی راہ تکتے تکتے، ان کے لیے آنسو بہاتے بہاتے اپنی بینائی کھو رہے ہیں، ان میں وہ بیٹیاں بھی شامل ہیں جو شیرخواری میں جدوجہد میں اس جدوجہد میں شامل ہوئیں اور آج جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی ہیں، اور ایسے بھی نام ہیں جو اس راہ پہ چلتے چلتے داعی اجل کو لبیک کہہ چکی ہیں۔ کس کس کا نام پکاروں، کہاں سے شروع کروں اور الفاظ جو، ان کے کردار کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورا کرے کہاں سے لاؤں۔۔۔

آج منظور کی خاموش نگاہیں پکار رہی ہیں مورخِ وقت کو، کہ وہ تحریر کرے، ان کرداروں کو جنہوں نے لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کیا، رقم کریں کچھ ان کے بارے میں جوفرعونِ وقت کے مقابل کس دیدہ دلیری سے صف آراء ہیں۔۔۔ اس کی خاموش چیخوں میں یہ صدا ہے کہ اے! انسانیت کے دعویدار اگر سکت باقی ہے تو جاؤ اور طواف کرو ان علاقوں کا جہاں ہر نکڑ پہ، ہر پگڈنڈی پہ، ہر چوک چوراہے پہ انسانیت سوز داستانیں رقم ہورہی ہیں، جہاں محکوم و مظلوم کے بہتے لہو نے دجلہ و فرات کی سی صورت اختیار کی ہے، جاؤ ذرا مہر گڑھ کے باسیوں کی حالات دیکھو! بلکہ نہ صرف نظارہ کرو بلکہ اس احساس کے ساتھ وہاں قدم رکھنا تو شاید انسانیت تمہیں صدا حق کی تلقین کرے کہ وہ جنہوں نے دنیا کو تہذیب سے آشنا کیا۔۔۔ آج کیسے ظلمات کے سمندر میں ڈبوئے جارہے ہیں، آج کیسے ان کی اپنی دھرتی پہ ان کاگلا گھونٹا جارہا ہے۔۔۔ آج کیسے وہ ہر سمت کربلا کامنظر دیکھ رہے ہیں۔۔۔ منظور کے خاموش چہرے پہ، جھکی جھکی نگاہوں میں شاید اس بات کا اظہار ہو کہ اے مادرانِ بلوچ! جو درد تمہارا ہے، اسی کا ہم بھی شکار ہیں، ہم نے بھی لاشیں اٹھائی، ہماری ماؤں اور بہنوں کی چیخیں بھی عرش تک پہنچی ہیں، شاید ہم نے دیر کردی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے، جس کے خلاف تم صف آراء ہو۔۔۔ شاید منظور کی خاموش آنکھیں بلوچ شیرزالوں کو یہ داد دے رہی ہے کہ تمہاری قوم کا کوئی مول نہیں، اور شاید اس منزل تک پہنچنے کے لیے ہم سمیت خطے کے دیگر اقوام کو عرصہ لگے۔۔۔ان لمحوں منظورشاید یہ سوچ رہا ہے کہ کتنی عظیم ہیں بلوچ دھرتی کی خواتین جن کی مسلسل جدوجہد بے نظیر ہے۔۔۔اور ہاں شاید ذہن میں یہ سوال بھی گردش کررہاہو کہ کب اور کیسے اس خطے میں بسنے والے مہرگڑھ کی دیویوں کی راہ پہ گامزن ہونگے کہ یہی ذریعہ نجات بھی ہے اور یہی راستہ روشن مستقبل کی جانب جاتا ہے۔۔۔

منظور پشتین نہ جانے میں نے انجانے میں کیا کچھ تحریر کیا، پر جو کچھ بھی رقم کیا وہ آپ کی اس تصویر کی وجہ سے، جس میں واضح طور پر آپ دردِ انسانیت محسوس کرتے نظر آرہے ہو، اس درد کا راز شاید یہ ہے کہ آپ اور آپ کی قوم ایک طویل عرصے سے ان طاغوتی قوتوں کی بربریت کا شکار ہے۔۔۔ جس نے آپ کو نہ صرف اپنی قوم کے لیے جدوجہد پہ اکسایا بلکہ جہاں اور جو بھی ظلم کا شکار ہوا آپ نے اس کی آواز بننے کی کوشش کی جو آپ کے انقلابی کردار کی ضمانت دے رہا ہے۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here