فائزر اور بائیو این ٹیک آئندہ ماہ تک غریب ترین ممالک کو کورونا ویکسین کی چالیس ملین خوراکیں فراہم کریں گے۔ ڈبلیو ایچ او اپنی کوویکس اسکیم کے تحت اس سال بیس فیصد متاثرہ آبادیوں تک ویکسین پہنچانا چاہتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی کوویکس اسکیم کا مقصد غریب ممالک کی متاثرہ ترین آبادی کو کورونا ویکسین فراہم کرنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی کی کوویکس اسکیم کے ذریعے امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک کے ساتھ غریب ملکوں کے لیے چالیس ملین ویکسین فراہم کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جنیوا میں جمعہ بائیس جنوری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹیڈروس نے بتایا کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے کوویکس اسکیم میں امریکا کی شمولیت کے فیصلے کا مطلب ہے کہ عالمی ادارہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے قریب ہے۔
واضح رہے امریکی صدر بائیڈن کے چیف میڈیکل ایڈوائزر انٹونی فاو¿چی نے جمعرات اکیس جنوری کو اعلان کیا تھا کہ امریکا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے کوویکس منصوبے میں شامل ہوگا۔ عالمی ادارہ صحت کی کوویکس اسکیم کا مقصد اس سال کے دوران غریب ممالک کی متاثرہ ترین آبادی کے بیس فیصد حصے کو کورونا ویکسین فراہم کرنا ہے۔
قبل ازیں اسی ہفتے کے آغاز میں ٹیڈروس نے امیر ملکوں پرویکسین کی ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے شدید تنقید کی تھی۔
امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کے چیئرمین البرٹ بورلا نے جنیوا میں ورچوئل کانفرس میں بتایا کہ ویکسین کی پہلی کھیپ غیر منافع بخش بنیادوں پر بھیجی جائے گی۔ بورلا مزید کہتے ہیں، ”کورونا ویکسین دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی دستیاب ہونا چاہیے۔“
جنیوا سے یہ اعلانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امیر ترین ممالک ویکسین حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالرز خرچ کر رہے ہیں۔ بعض ممالک پہلے ہی دو طرفہ معاہدوں کے تحت حاصل کردہ ویکسین استعمال کر رہے ہیں۔ اس عمل پر یورپی یونین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
ویکسینیشن کے نجی اور عوامی فنڈ گاوی کے چیئرمین سیٹھ بیرکلے کے مطابق سن 2021 کی پہلی سہ ماہی تک ایسٹرا زینیکا کی جانب سے مزید 150 ملین ویکسین فراہم کی جائیں گی۔ عالمی سطح پر دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے اس سال کتنی تعداد میں ویکسین تیار کرنے کے سوال کے جواب میں بیرکلے نے بتایا، ”ہم چھ سے سات ارب ٹیکے تیار کرنے کی بات کر رہے ہیں۔“ اس کے علاوہ بیرکلے نے بتایا کہ اگر چینی اور روسی ویکسین محفوظ اور مو¿ثر ثابت ہوتی ہیں تو ان کو بھی کوویکس اسکیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔