پاکستانی مقبوضہ کشمیر : شہریوں نے ایک شخص کی جبری گمشدگی کی کوشش ناکام بنادی

0
276

دو روز قبل پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں پیش آنے والا ایک واقعہ سوشل میڈیا پر خاصی بحث کا باعث بنا رہا۔

بدھ کے روز سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ درجنوں افراد ایک سفید ڈبل کیبن گاڑی کے گرد جمع ہیں جس کی ونڈ سکرین ٹوٹ چکی ہے اور مقامی افراد گاڑی میں موجود افراد سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔

یہ افراد اپنی شناخت فیڈرل انویسٹیگیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے اہلکار کی حیثیت سے کرواتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ یہاں ایک ملزم کو گرفتار کرنے آئے ہیں جس کے لیے ان کے پاس وارنٹ بھی موجود ہے۔

اتنے میں پولیس اہلکار ان کی گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور بعد میں انھیں اس بھیڑ سے بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اس دوران سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں ان اہلکاروں سے سوالات اور مجمعے کی جانب سے لگائے جانے والے نعروں کے باعث اکثر افراد کا خیال تھا کہ یہ مبینہ طور پر پاکستان کے کسی خفیہ ادارے کے اہلکار ہیں جو یہاں کسی شہری کو جبری طور پر حراست میں لینے آئے ہیں۔

دوسری جانب انڈیا میں بھی متعدد افراد نے سوشل میڈیا پر اس کو پاکستان کے خفیہ اداروں کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی۔

صارف امجد نواز خان نے، جن کا تعلق بظاہر کشمیر سے دکھائی دیتا ہے، ٹوئٹر پر لکھا: ’شاباش راولاکوٹ کے شہریوں۔ پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی نے راولاکوٹ سے لڑکوں کو اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی کیونکہ یہ بلوچستان یا فاٹا نہیں۔ ہم اس شرمناک عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کو ہراساں یا اغوا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

صارف عاطف مقبول نے لکھا: ’میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں جس انداز میں جمہوریت کا قتل عام کیا گیا اس کی مذمت کرتا ہوں۔ قانون کے نام پر کسی اور ریاست کے شہری کو بغیر کسی اطلاع کے اغوا کرنے کا قانون کہاں ہے؟ ایسے واقعات بدقسمتی ہیں۔‘

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ کے سینئیر قانون دان سرادر کے ڈی خان سے جب اس سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی گورنمنٹ نے شیڈول تھری کے پارٹ اے کی نسبت ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جس کے تحت وہ براہ راست اس خطے سے کسی بھی فرد یا ملزم کو گرفتار کر سکیں۔ جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے بھی آرٹیکل 19 کے تحت ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جس میں وہ حکومتِ پاکستان کو اجازت دیں کہ وہ اس خطے کے محکمہ داخلہ کو بغیر اطلاع دیے کسی بھی ملزم یا فرد کو گرفتار کر سکیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’اگر ایف آئی اے کو مذکورہ ملزم گرفتار کرنا مقصود تھا تو اس کا قانونی تقاضا یہ تھا کہ وہ اس خطے کے محکمہ داخلہ سے تحریری طور پر معاونت حاصل کرنے کے لیے درخواست کرتے جس کا سربراہ اس خطے کا چیف سیکریٹری ہوتا ہے جو یہاں پاکستان کی حکومت کی جانب سے وفاق کے نمائندہ کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here