لاہور و گردونواح میں ایک کروڑ 10 لاکھ بچوں کو زہریلی فضائی آلودگی کا سامنا

0
29

بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے ،یو این چلڈرن فنڈ، یا یونیسیف نے پیر کو ایک بیان میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور کئی دوسرے اضلاع میں عالمی ادارہ صحت کے فضائی معیار کے رہنما اصولوں کو 100 گنا پیچھے چھوڑتے ہوئے فضائی آلودگی کی سطح کے ریکارڈ توڑ دیے۔

اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے گنجان آباد صوبے پنجاب میں انتہائی آلودہ ہوا لوگوں کے لیے شدید خطرات کا باعث بن رہی ہے، جن میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ شہروں میں درجنوں بچوں سمیت سینکڑوں لوگوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے اور آلودگی اتنی شدید ہے کہ خلا سے نظر آ رہی ہے۔

پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے کہا، “چونکہ صوبہ پنجاب میں دھند بدستور برقرار ہے، میں ایسے چھوٹے بچوں کی صحت کے بارے میں سخت فکر مند ہوں جو آلودہ، زہریلی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔”

انہوں نے فضائی آلودگی کو کم کرنے اور بچوں کی صحت کی حفاظت کے لیے فوری کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دھند کی ریکارڈ توڑنے والی سطح سے پہلے بھی، پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی لگ بھگ 12 فیصد اموات کو فضائی آلودگی سے منسوب کیا گیا تھا۔

فاضل نے کہا، “اس سال کی غیر معمولی دھند کے اثرات کا اندازہ لگانے میں وقت لگے گا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہوا میں آلودگی کی مقدار کو دوگنا اور تین گنا کرنے سے خاص طور پر بچوں اور حاملہ خواتین پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔”

حال ہی میں صوبائی حکومت، خصوصا ً لاہور میں دھواں،کاربن گیسوں کے اخراج اور دھول کا مجموعہ ایک سالانہ چیلنج بن گیا ہے۔ تحقیقی رپورٹس میں گاڑیوں، تعمیراتی دھول اور کھیتوں میں لگنے والی آگ سے نکلنے والے دھوئیں کو اس کی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے رہائشی میڈیا کو انٹرویوز میں یہ شکایت کر چکے ہیں کہ دھند آنکھوں میں جلن اور باہر نکلنے پر گلے میں تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ زیادہ تر لوگ دروازوں اور کھڑکیوں کے ذریعے کمروں میں داخل ہونے والے زہریلے ذرات کے نقصان کو محدود کرنے کے لیے اندر ہوا کو صاف کرنے والے آلات، یا ایئر پیوریفائرز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

پنجاب میں حکام نے دھند سے متاثرہ اضلاع میں سکولوں کو نومبر کے وسط تک بند کر دیا ہے تاکہ بچوں کو دھند سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو فضائی آلودگی سے بچانے کے لیے 17 نومبر تک انہیں پارکوں، چڑیا گھروں، کھیل کے میدانوں اور دوسرے تفریحی مقامات میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت نے لاہور میں ہر ایک کے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا ہے، جب کہ 50 فیصد ملازمین کو لازمی طور پر اس سلسلے میں گھر سے کام کرنا ہو گا جسے شہر میں “گرین لاک ڈاؤن” کہا جاتا ہے۔ ریستورانوں میں کھانوں کو فلٹر کے بغیر باربی کیو کرنے کی ممانعت ہے ، اور شادی ہال لازمی طور پر رات 10 بجے بند کر دیے جاتے ہیں۔

فاضل نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنے سے ایک ایسے ملک میں تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ بچوں کی پڑھائی میں خلل پڑا ہے جہاں ڈھائی لاکھ سے زیادہ نوعمر بچے پہلے ہی اسکول نہیں جاتے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ صاف توانائی اور ٹرانسپورٹیشن کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ زراعت اور صنعت سے کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنا نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات محدود کرنے، بلکہ بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔

پاکستا ن میں یونیسیف کے سربراہ نے پیر کے روز آذربائیجان میں اقوام متحدہ کی دو ہفتے کی سالانہ کائمیٹ کانفرنس کے آغاز کو ایک “حقیقی موقع” قرار دیا۔

بھارت کا دارالحکومت دہلی ان دنوں شدید اسموگ کی لپیٹ میں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here