ڈیرہ بگٹی میں فوجی بربریت | ریاض بلوچ

0
223

ڈیرہ بگٹی میں پچھلے پانچ دنوں سے بڑے پیمانے پر اعلانیہ فوجی آپریشن جاری ہے، جس میں پاکستانی آرمی کے گن شپ ہیلی کاپٹروں سمیت جنگی کمانڈوز حصہ لے رہے ہیں۔ یہ آپریشن ہفتے کے روز سوئی سے سبی جاتے 6 افراد کی اغواء کے بعد شروع ہوا جن کو پاکستانی میڈیا میں سرکاری ذرائع فٹبالر بتا رہے ہیں، جن کے حوالے سے بعد ازاں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن ٹائیگرز کے ترجمان میران بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں ان کے اغواء کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اغواء شدگان پاکستانی ایجنسیوں کے کارندے ہیں ان کے پیرول پہ ڈیرہ بگٹی میں بلوچ نسل کشی اور اغوا کاریوں میں ملوث پائے گئے ہیں، ترجمان کے مطابق ان میں سے ایک کا بھائی آئی ایس آئی کا ہائی رینک آفیسر ہے ۔

پانچ دنوں کے دوران ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن سے اب تک متعدد افراد کو غیر قانونی حراست میں لیکر جبری لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ مقامی ذرائع اور سوشل میڈیا سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے کثیر تعداد میں علاقے کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور فوجی بربریت شروع کی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس خونی آپریشن میں 5 افراد شہید ہو چکے ہیں (جنکی کسی آزاد زرائع سے اب تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے) اسکے علاوہ متعدد افراد جبری طور پر لاپتہ کئے گئے ہیں جن میں سے اب تک 17کی شناخت ہوگئی ہے۔ اور ان میں سے کچھ افراد کو بعد ازاں اگلے دن چھوڑ دیا گیا ہے۔

سوئی میں فوجی آپریشن کی نگرانی آئی جی ایف سی ، کورکمانڈر کوئٹہ جنرل آصف غفور خود کررہے ہیں۔ علاقائی ذرائع سے موصولہ ویڈیو کلپس اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگی ہیلی کاپٹرز آبادی کے اوپر فضا میں گھوم رہے ہیں اور بکتر بند گاڑیوں کے قافلے کو سوئی بازار میں داخل ہوتے دیکھا گیا ہے جو سبی، کشمور اور قریبی شہروں سے سوئی میں فوجی آپریشن کیلئے داخل ہو رہے ہیں ۔

بلوچ مسلح تنظیم کی طرف سے اٹھائے گئے 6 ریاستی کارندوں کے اغوا کے خلاف نام نہاد امن جرگہ کے لوگوں نے بلوچ تنظیم اور براہمدغ خان بگٹی کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی تھی جس میں متعدد افراد مسلح دیکھے
گئے ہیں جو ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے کارندےبتائےگئے ہیں اور ریاستی پیرول پہ بلوچوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناتے ہیں یا بلوچ نسل کشی میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔

اسی دوران ڈیرہ بگٹی اور کشمور کے علاقے میں گیس کے کنویں اور پائپ لائنوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی بھی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں، جہاں تین گیس پائپ لائنوں کو سوئی میں لوٹی کے مقام پر تباہ کر دیا گیا تھا جبکہ گزشتہ رات پیر کوہ کے علاقے میں گیس کے ایک کنویں کو تباہ کیا گیا جبکہ کل کے دن کشمور کے علاقے میں 36 انچ کا گیس پائپ لائن جو کراچی اور سندھ کی طرف جا رہا ہے کو بھی اڑا دیا گیا، جسکے باعث کراچی اور سندھ کو گیس کی سپلائی مکمل طور پر بند ہو گئی ہے، ان تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن ٹائیگرز نے قبول کر لی ہے ۔

ڈیرہ بگٹی اس وقت ایک شدید فوجی آپریشن سے گزر رہا ہے، جہاں فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹریں گھوم رہے ہیں۔ دوسری جانب زمینی فوجیں آبادیوں میں آپریشن میں مصروف عمل ہیں، ایس ایس جی کمانڈروز کو پہاڑی آبادی والے علاقوں میں چھوڑا جا رہا ہے، چیک پوسٹوں پہ ناکہ بندی وسخت چیکنگ کی جا رہی ہے، سوئی اور اسکے گرد و نواح کے علاقے مکمل فوجی محاصرے میں ہیں، کل سے شیرانی اور سنگسیلہ کے علاقوں کو بھی محاصرے میں لیا گیاہے، وہاں سے بلوچ مالداروں کے بکریوں اور دیگر مال واسباب کو لوٹنے کے بھی اطلاعات ہیں۔ سوئی کے این نواحی علاقے میں زالوانی قبیلے کے ایک مالدار کے بیس بکریوں کو فوجی اپنے گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے ہیں۔

جبکہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے آسریلی میں مقیم بگٹی قبیلے کی ذیلی شاخ باخلانی کے بیس خاندانوں کو پاکستانی فوج نے ان کے گھروں سے بے دخل کردیاہے ۔ان کو دھمکا کر ان کے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیاہے۔ مذکورہ خاندانوں کو اپنے کھڑے فصل بھی چھوڑنے پڑے جن پر ان تمام خاندانوں کا زندگی کا گزر بسر منحصر تھا۔

ایسے بہت سے واقعات کی تفصیلات وہاں سے وقتاً فوقتاً آ رہے ہیں، یہ جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کا دور ہے ،پاکستانی ریاست اپنی بربریت کو بلوچستان میں کہیں چھپا نہیں سکے گی، سچ ضرور سامنے آ جائے گی۔ڈیرہ بگٹی سے بیگناہ لوگوں کو غیر قانونی حراست میں لیا جا رہا ہے۔ جن میں کمسن بچے اور بزرگ شہری بھی شامل ہیں، جن کا کوئی بھی قصور نہیں ہے۔ ان بچوں اور بزرگوں کا نہ کسی مسلح تنظیم سے کوئی تعلق ہے نہ کوئی دوسرا جرم کیا ہے لیکن ریاست سرفراز بگٹی کے ذریعے محض اپنے بیانیے کو لوگوں پہ مسلط کرنا چاہتا ہہے۔

آجکل کے بگٹی نوجوان بھی پڑھے لکھے قابل ہیں، ان کو بخوبی پتہ ہے کہ کون ان کا دوست یا کون دشمن ہے؟ کون سالوں سے انکے حقوق پہ ڈاکہ ڈال رہا ہے اور انکے وسائل کو لوٹ رہاہے، وہی سوئی گیس جو پنجاب میں میسر ہے مگر بلوچستان میں نہیں جسکی آمدن سے پاکستان اپنا دفاعی بجٹ بناتا ہے اور اسی پیسوں سے بلوچوں پہ فوجی آپریشن کرکے انکی نسل کشی کرتا رہتا ہے ۔یہ باتیں بتانے نہیں پڑتے، بلوچ کا بچہ بچہ جنگی حالات میں پرورش پا رہا ہے اور انکے اندر مزاحمت پنپ رہی ہے ۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here