خواتین کاعالمی دن اور بلوچ عورت | رامین بلوچ

0
266

بلوچ سماج میں مجموعی طور پر مرد اور عورت کے درمیان کوئی جنگ اور لڑائی نہیں اور نہ ہی بلوچ خواتین کسی مردانہ سماجی جبر کا شکار ہیں اور نہ ہی بلوچستان میں کسی قسم کی پدرسری نظام کا کوئی وجود یا باقیات ہیں اور نہ ہی مرد عورت میں کسی قسم کی سماجی تفریق یا صنفی اونچ نیچ موجودہے۔

فطری طور پر بلوچ سماج عورت کو ہر قسم کی آزادی دیتی ہے جس کا تصورآج کے لبرل و فیمینزم سیکولر معاشروں میں بھی نہیں جہاں بے مہاری کو آزادی کہا جاتاہے لیکن بلوچستان میں آزادی اور بے مہاری میں فرق ہے۔ بلوچ سماج کا اپنا ضابطہ اخلاق اور مینو فیسٹو ہے جو کسی بھی فطری انسانی قوانیں سے متصادم نہیں۔ایک ایسا سماج جس کی تہذیب تاریخ اقدار رہن سہن اورفکری اساس کی اہمیت سنگ میل ہو وہاں عورت کی آزادی پر قدغن کاسوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا۔اگر بلوچ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہماری آدھی تاریخ جنگوں تنازعات اور کشمکش مشکلات اور آزمائشوں کی تاریخ ہے اور بلوچ عورت کا کردار اس میں ہمیشہ مثالی اور سمبولک رہی ہے۔

دیکھا جائے تو بلوچ عورت سماج کے ہر شعبہ میں مرد کے ہم پلہ اپنا کردار اداکرتی ہے۔ وہ ڈاکٹر وکیل پروفیسراستاد شاعر ادیب گلوکار اور مصور بھی ہے اور سیاسی و سماجی میدان میں بھی بلا جبر وبندش کردار ادا کررہی ہے۔ بلوچ سماج میں اگر جہاں کہیں بھی فرسودگی یاکوئی خرابی نظر آتی ہے تووہ داخلی نہیں بلکہ نوآبادیاتی نظام اور پنجابی کالونائزرکی دین ہے جس نے سماج کے ہر اقدار ہر تعلق اور ہر رشتہ کو تہہ و بالاکردیاہے۔آج اگر بلوچستان میں انسانی ترقی وتعلیم و ارتقاء میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ قابض ریاست ہے۔بلوچ سماج بنیادی طور پر ایک ترقی پسندو انسان دوست سماج رہاہے جہاں عورت کو کھبی بھی نجی ملکیت نہیں سمجھا گیا جہاں رشتوں اور قدروں کی بیوپاری نہیں ہوتی تھی جہاں کسی عورت کو ہراسمنٹ کا شکار نہیں بنائی جاتی تھی جہاں عورت عورت نہیں بلکہ ایک انسان تھی ہر لحاظ سے بلوچ سماج سنو وائٹ یا خیالات کی دنیا نہیں بلکہ ایک تہذیب یافتہ دنیا تھی۔

کرہ ارض میں بسنے والے مختلف اقوام مختلف طریقے اور نعروں کے ساتھ خواتین کا عالمی دن مناتے ہیں جب کہ بلوچ خواتین احتجاج کے طورپر اس دن کو ریاستی جبر کے خلاف مناتے ہیں چونکہ بلوچستان ایک مقبوضہ اور متنازعہ علاقہ ہے اور اپنے اس حیثیت میں بھی ہم دنیا سے الگ نہیں رہ سکتے اور اس عالمی دن کے حوالہ سے ہماری عورت بھی احتجاج ریکارڈ کرتی ہیں لیکن ان کی سلوگنز اور نعرے نوآبادیاتی نظام کی کوکھ میں جنم لینے والی سوچ سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہوتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کئی بھی ہم میں اور پنجابی ریاست میں کوئی ہم آئنگی نہیں ہماری تہذیب ہمارے اقدار ہماری زبان ہمارے روایات کلچر تاریخ اور جغرافیہ فکر اور فلاسفی میں کوئی قدر مشترک نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو لبرل و فارمی دانشورز این جی اوز اور بعض اوقات پنجابی نواز مارکسسٹ بلوچ عورت پر مرد کی بالادستی اور سماجی جبرکے حوالہ سے جس طرح کے پروپیگنڈے پھیلادیتے ہیں یا بلوچ تاریخ و تہذیب کے حوالہ سے مبالغہ آرائی یا مغالطہ سے کام لیتے ہیں تووہ اس نکتہ پر زمینی حقائق سے انصاف نہیں کرتے بلکہ ان کی فطرت خمیر اور سرشت میں انصاف اور انسانیت نام کی کوئی جراثیم سرے ہی سے موجود نہیں ان کی اپنی پوری تاریخ عالمی سامراج اور حملہ آوروں کی باجگزاری اور تابعداری میں گزری ہے۔ان کی جملہ تاریخ حملہ آوروں کے خیر سگالی کے ارد گرد گھومتی ہے۔

ان کے اپنے دانشور احمد سلیم پنجاب کے سوسال میں اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیشرووں کو لعن و طعن کرتے نظر آتاہے بلکہ ان کی جانب سے بلوچ بارے جو کہاگیایا لکھا گیاہے وہ مجموعی بلوچ سماج کا سرسری اور سطحی تجزیہ ہے یا تو یہ ان کی بلوچ تاریخ سے نابلدی ہے یا پھر وہ ریاستی بیانیہ کو لے کر اس پراپیگنڈے کا حصہ ہے جو بلوچ بارے ریاست پھیلانا چاہتاہے۔

بلوچ سماج میں عورت کے صنفی استحصال کا تصور قدیم سے موجود نہیں ہے بلکہ بچی کی پیدائش سے لے کر عورت بننے تک اس کا احترام بلوچ سماج کا جزو لاینفک ہے اس سارے صورتحال میں ذکر کئے گئے اس لکھے پڑھے طبقہ اور لبرل دانشورزکی آراہ اور سوالات میں کئی بھی ریاستی جبر کا ذکر نہیں آتا اور انہیں دشواری ہوتی ہے جب وہ اپنی قلم اور معلومات کارخ نوآبادیاتی قوتوں اور قابض ریاست کے خلاف استعمال کرے ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کی تاریخ روایات تہذیب تمدن ثقافت اور رشتوں کے احترام رشتوں کے ساتھ تعلق اور سلوک کو اپنے گھرانہ سے سیکھتے ہیں ہماری تربیت اور سماجی تعلیم اتنی کمزورپسماندہ اور خام نہیں کہ ہمیں عورت کی غلامی اور اس کی استحصال کی تعلیم دی جائے آپسی جنگوں میں بلوچ عورت کو قرآن کادرجہ حاصل ہے۔

چادر و چاردیواری پر حملہ کا تصور نہیں بلوچ سماج میں کسی عورت کا اغواء انتہائی شرمناک اور قابل سزاء عمل ہے۔بہادر عورت کے لئے شیر زال کا لقب اس کی بہادری اور جرأت کاتمغہ امتیاز ہے۔بلوچ عورت اگر کسی جبر کاشکار ہے تو وہ ریاستی جبر ہے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اگر بلوچ خواتین کے احتجاجی ریلیوں پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو بینروں اور پینافلیکس پر لکھے ہر نعرے ریاستی جبر کے خلاف گونجتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ ہر طرح کے مظالم اور استحصال کے ہر شکل کو ریاستی قبضہ گیری سے تعبیر کرتے ہیں سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر بھی دیکھاجائے تو سوشل ایکٹوسٹ بلوچ خواتین ریاستی جبر کے خلاف پوسٹ اور کمنٹس کرتے ہوئے اس دن کے حوالہ سے اظہار خیال کرتے ہوئی ریاستی جبر وقبضہ کے خلاف اپنی موقف دہراتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں کسی نوجوان کوجبری گمشدگی کانشانہ بنایاجاتاہے یا انہیں شہید کیا جاتاہے تو سب سے زیادہ بوجھ سب سے زیادہ تکلیف بلوچ عورت کو ہوتی ہے۔ وہ ماں کی شکل میں ہو بیوی کی روپ میں ہو یا بہن کی جب وہ اپنے شوہروں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی لاشیں دیکھتی ہیں یا ان کی گمشدگی کی خبر انہیں پہنچتی ہے تووہ ان کے لے روز میزان ہوتی ہے جس نفسیاتی گھاؤ سے وہ گزر جاتی ہیں ان کا تصور تک بھی نہیں کیا جاسکتا۔

بلوچستان میں ہزاروں سے زائد خواتیں بیوہ ہوچکی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نیم بیوگی کی حیثیت میں زندگی گزاررہے ہیں جن کے پیارے گمشدہ ہیں اور وہ انہیں ہر چوک اور چوراہوں پر ڈھونڈھتے پھر رہے ہیں کہ انہیں زمین نگل یا آسمان وہ سینے پہ ان کی تصویریں سجائے ان کی رہائی اور بازیابی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں۔ہزاروں خواتین ریاست کے اس جنگی جرائم کی پاداش میں ذہنی اور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں احتجاجوں کے دوران کئی مائیں ریاست کی جابرانہ ہتکھنڈوں کے خلاف بولتے ہوئے غم و الم کی کیفیت میں بے ہوش ہوجاتے ہیں اور یہ صورتحال وہ اپنے لئے خو د نہیں چنی بلکہ ریاستی دہشت و تشدد کی پیداکردہ صورتحال ہے جس کا وہ ہر لمحہ اور ہر سیکنڈ سامنا کررہے ہیں۔

ریاستی فورسز جن گھروں پر چھاپہ مارتے ہیں وہ چادر اور عورت کا لحاظ نہ کرتے ہوئے انتہائی بربریت اور بے رحمی کے ساتھ کارروائیاں کرتے ہیں۔وہ بلوچ خواتیں کو اپنی بندوقوں کے سائے میں زدوکوب کرتے ہوئے شب خون مارتے ہیں۔کوئٹہ میں واقعہ نیوکاہاں میں مری کیمپ پھر چھاپہ کے دوران ایک بوڑھی عورت کو ریاستی فورسز اس لئے شہید کرتی ہے کہ وہ ان کے راستہ میں رکاوٹ اورمزاحمت کے طور پر سامنے آتاہے۔تربت میں خواتین کے احتجاج پر ان پر فائرنگ کھول کر انہیں لہو لہاں کیا جاتاہے۔بولان اورمری بگٹی پہاڑوں میں رہنے والے بلوچ آبادیوں پر جیٹ طیاروں سے بمباری کی جاتی ہے جہاں اکثریت میں نشانہ بننے والے خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔

بانک نورجان کی گمشدگی سے لے کر بانک ماحل بلوچ کی جبری گمشدگی یا بانک کریمہ بلوچ کی شہادت کوئی اساطیری کہانی نہیں یا بانک زرینہ جس کی بارے میں سالوں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا انہیں شہید کیا گیا یا وہ زندہ ہے تو وہ کس میں حال ہوگی اور کیاوہ فوجی عصمت دری سے محفوظ ہوگی یہ کوئی قدیم دیو مالائی داستانیں نہیں ہیں اور نہ ان کوکسی مافوق الفطرت قوتوں نے اٹھایا بلکہ یہ سارے سیاہ کردار پاکستانی ریاست کی ہے جس کی جابرانہ قبضہ کی بدولت بلوچ خواتین سب سے زیادہ تکلیف اور اذیت رسانی کا سامنا کرتی ہیں۔

ذاکر مجید کی ماں چودہ سالوں سے اپنے بیٹے ذاکرجان کی جبری گمشدگی کے لئے احتجاج کررہی ہے۔سمی دین اپنی باپ کی بازیابی کے لئے پیدل اسلام آباد تک لانگ مارچ کرتی ہے۔ راشد حسین کی ماں اپنی لخت جگر کو انصاف دلانے کے لئے کھبی کراچی کھبی شال کھبی پریس کلب کھبی ریڈزوون میں دھرنا دیتی ہے۔ سخت سردیوں میں جہاں موسم نقطہ انجماد سے گرجاتی ہے وہ کوئی خبر آنے کے منتظرہوکر رات کی سیائی میں ریڈ زون کومسکن بنادیتی ہے۔ ہزاروں لاپتہ افراد کی مائیں بہن اور بیٹیاں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ان کی تصاویر ہاتھ میں لے کر احتجاج کا حق استعمال کرتی ہیں لیکن ریاست کھبی بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی ان ماں بہنوں کی بازگشت کا جواب دہ بن جاتاہے بلکہ اخلاقی گراوٹ کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ان پر شیلنگ کرتی اور آنسو گیس پھینکتے ہوئے انہیں احتجاج کی سیاسی حق سے دستبردار کرنے کے لئے دھمکی اور دباؤ ڈالنے کی تمام ہتکھنڈے آزماتی ہے۔

گمشدہ افراد کی بازیابی کا معاملہ الگ ان تک ان کے خاندانوں کو ان کے بارے میں معلومات تک کی رسائی تک دینے سے انکار کرتی ہے۔ ایسے حالات میں ان گمشدہ ماؤں اور بیواہوں کی زندگی ایک درد ایک سسپنس اور بوجھ میں گزرتی ہے۔ ان کے لئے ہر آنے والا دن انتظار گاہ بن جاتی ہے۔ جبری گمشدگی کی بین الاقوامی کنونشن کے قوانین کے مطابق گمشدہ افراد کے لواحقین جو ان جبری گمشدگیوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں تووہ بھی وکٹم بن کر ریاستی جبر کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ایک لکھنے والے کی حیثیت سے میں ان تمام ماں بہنوں کو خراج تحسین پیش کرتاہوں کہ جو قومی جدوجہد میں شعوری طور پر شریک ہوکر اپنی حصہ کا فریضہ ادا کررہی ہیں۔آزادی اور امن کے لے لڑنے والے ان بہادر خواتین کی کو ہ گراں جدوجہد کا حاصل وصول صرف آزادی ہے۔ آزادی کے بغیر نہ مرد آزاد ہے نہ عورت۔ ان تمام تکالیف اور اذیتوں کا ازالہ صرف ایک آزاد و خوشحال بلوچستان کے بغیر ممکن ہے۔

جب تک بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد ہے اس وقت ہمارے پیارے ہر دن شہادت اور جبری گمشدگیوں کے اس تکلیف دہ عمل سے گزریں گے۔ یہ ناقابل سمجھوتہ جدوجہد ہے جب تک ہم مقصد اور جدوجہد سے وابسطہ رہیں گے جبر و بربریت کا ہونا ناگزیر ہے۔ ریاست چاہتاہے کہ یہ کوئی سمجھوتہ کریں ان کا ہر مکروہ کارروائی ہمیں توڑنے کی ناکام کوشش ہے تاکہ ہم اپنی آزادی سے دستبردار ہوں۔ ہماری ہر کامیابی و ناکامی ریاست کی مروجہ پیمانوں میں نہیں بلکہ ہمارے اپنی ان تھک جہد مسلسل میں ہے،جدوجہد کاراستہ ہے بھی مشکلات کایہاں ہر لمحہ اورہر سیکنڈ ہمارے اعصاب اور حوصلوں کا امتحان لیا جاتھا جب تک ہم ناقابل تسخیر بنے رہیں گے قبضہ گیر کے ہر ہمہ جہتی پہلوپر ہتھوڑا بن کے برسیں گے چاہے وہ جہد آزادی کے برسر زمین سیاسی محاذ ہو یاعسکری محاذ۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here