جنوبی کوریا میں بھگدڑ سے ہلاکتوں کی تعداد 151 ہوگئی

0
220

جنوبی کوریا میں حکام کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے ایک مشہور نائٹ لائف علاقے میں ہیلووین کے موقعے پر بہت بڑا ہجوم اکھٹا ہوجانے اور بھگدڑ سے کچلے جانے کے باعث 151 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق ابتدائی طور پر مرنے والوں کی تعداد 59 بتائی گئی تھی جو اب بڑھ کر 151 ہو گئی۔

حکام کے مطابق کچلے جانے سے کم از کم 82 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

سیؤل کے ایٹاون ضلعے کی ویڈیوز میں سڑکوں پر لاشیں، سی پی آر انجام دینے والے ہنگامی کارکن، اور امدادی کارکن دوسروں کے نیچے پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کچلے جانے کے واقعے کی وجہ کیا بنی۔

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔

عالمی رہنماؤں میں جنوبی کوریا میں پیش آنے والے اس سانحے پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔

اس علاقے میں مبینہ طور پر 100,000 لوگوں نے وبا کے بعد گھروں سے باہر بغیر ماسک ہیلووین تقریب کا جشن منایا۔

شام کے اوائل میں پوسٹ کیے گئے سوشل میڈیا پیغامات میں کچھ لوگوں کو یہ تبصرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ ایٹاون کے علاقے میں اتنا ہجوم تھا کہ انھیں یہ غیر محفوظ محسوس ہوا۔

بی بی سی کے ہوسو لی، جنھوں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا، کہا کہ انھوں نے ’بہت سے طبی عملے اور ایمبولینسیں کو ایک ایک کر کے لاشیں اٹھاتے ہوئے دیکھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ہجوم میں ہزاروں افراد موجود تھے، اور اب وہاں نیلی چادروں میں ڈھکی کئی لاشیں تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’آج رات یہاں بہت سارے نوجوان جمع ہوئے ہیں۔ پارٹی اور کلب میں بہت سے لوگ خصوصی ’ور پر بنائے گئے ملبوسات پہنے ہوئے تھے اور بہت سارے لوگوں کو میں نے پریشان اور اداس دیکھا ہے اور وہاں افراتفری کے مناظر ہیں۔‘

تصاویر اور ویڈیوز میں ہنگامی مدد فراہم کرنے والے اہلکار اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے جو سڑکوں پر بے ہوش لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک ویڈیو میں متعدد امدادی کارکن ایک تنگ سڑک پر لوگوں پر سی پی آر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری میں، امدادی کارکن لوگوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بظاہر ہجوم کے بڑھنے کے بعد مرنے والوں کی لاشوں کا ڈھیر لگ رہا ہے۔

ایک مقامی صحافی نے کہا کہ یونگسان ڈسٹرکٹ میں ہر موبائل فون پر ہنگامی نشریات بھیجی گئی ہیں جس میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد گھروں کو لوٹ جائیں۔

ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جائے وقوعہ کے قریب ایک عمارت میں ایک عارضی مردہ خانہ قائم کیا گیا ہے۔

عینی شاہد نے بتایا کہ بعد میں درجنوں لاشوں کو سٹریچر پر لایا گیا۔

نیشنل فائر ایجنسی کے ایک اہلکار مون ہیون جو نے بتایا کہ ’علاقہ اب بھی افراتفری کا شکار ہے اس لیے ہم ابھی تک زخمی ہونے والوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

قریبی ہسپتالوں میں منتقل ہونے والوں میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ حکام واقعے کی وجوہات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here